آپ نے بارہا دیکھا ہو گا کسی بظاہر تعلیم یافتہ کو جو رحمت کے نزول پر عجیب دل گرفتگی کا شکار ہو گیا ہو،جس کے جذبات کا اتار چڑھاؤ اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہو۔کتنی حیرت کی بات ہے نا کہ نعمت کا خالق اور دینے والا بھی وہی ہے اور رحمت کا نزول کرنے والا بھی وہی ہے مگر ہم انسان کتنے کٹھور بن جاتے ہیں نا خود اپنے لئے ہی جب ہم رحمت کے عطا کیے جانے پر ذلت محسوس کرتے ہیں تو کبھی بے چین ہو جاتے ہیں،کبھی رحمت قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں تو کبھی خوش ہونے اور مبارک باد وصول کرنے میں عجیب تناؤ کی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔کیا اناج اور دودھ،گوشت اور بے شمار نعمتوں کے حصول کے لئے ہم رحمت(بارش) ہی کے منتظر نہیں رہتے؟ جب نعمتوں کے حصول کا راز پوشیدہ ہی رحمت کے انتظار میں ہے تو ہم بیٹی کی پیدائش پر غمزدہ کیوں ہو جاتے ہیں؟
کیا ہم اللہ کی تقسیم وعطا پر راضی نہیں؟کیا اللہ جو ہماری رگ رگ سے واقف ہے،شہ رگ سے بھی قریب ہے جب اس سے مانگیں تو کیا وہ ہماری خواہشات سے بے خبر رہ سکتا ہے؟نہیں نا!
اللّٰہ تو یوں بھی آزماتا ہے نا اپنے بندوں کو۔دے کر بھی آزماتا یے،نہ دے کر بھی،بیٹیاں دے کر بھی اور بیٹے دے کر بھی۔کیا ہم بیٹی کی پیدائش پر اس لئے رنجیدہ ہوتے ہیں کہ ہمیں امتحان میں پرچہ ہماری پسند کا کیوں نہ دیا گیا؟کیا دنیا کے ممتحن ہمیں وہ پرچہ دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں؟اللہ جو لطیف و خبیر ہے جس کی نظر ہر معاملے اور ہر پہلو پر ہے کیسے ہمیں ہماری پسند کا پرچہ دے سکتا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ ہم دعائیں مانگنا چھوڑ دیں۔کیا بیمار بچہ ماں سے ایسی چیز کا تقاضا کرتا ہے جو اس کی صحت کو خراب کرے گی تو بار بار مانگنے پر کیا ماں اسے دے دے گی؟ نہیں بلکہ وہ متبادل چیز دے گی،اس کی صحت مند ہونے کے بعد اس کی خواہش پوری کر دے گی،بچے کے یوں ماں سے مانگنے سے دونوں کا قلبی تعلق بڑھے گا۔اللہ،جو ماں سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کو جاننے والا ہے کیسے ان کے حق میں ضرر رساں فیصلہ کر سکتا ہے؟
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم تھڑدلے انسان جو دنیا میں رحمت(بیٹی) کی آمد پر اغماض برتتے ہیں آخرت میں کس منہ سے ‘رحمت'(الٰہی)کے طلبگار ہوں گے؟
آپﷺ نے فرمایا: بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو ، بےشک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں۔ (مسند امام احمد)
آئیے ان محبت کرنے والیوں کی حق تلفی روز پیدائش ہی کرنے کی روش ترک کر دیں،آئیے بیٹیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائیں ویسی ہی جیسی بیٹے کی پیدائش پر مناتے۔یقینا ہم بیٹیوں کی پیدائش والے دن سے ہی ان کی حق تلفی سے بچیں گے تو ہی وہ ہمارے لئے جہنم سے آڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔اللہ ہمیں روز قیامت آپ صہ کا ساتھ یوں نصیب فرمائے جیسے دو انگلیاں۔آمین