پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
نیلگوں آسمان سے بھی بلند تر جس قوم کی منزل ہے وہ آج پستیوں میں کیوں گھری ہوئی ہے؟ وہ ان گنت مسائل کا شکار کیوں ہے ؟ اپنے مسائل کے حل کے لیے غیروں کی محتاج کیوں ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے مالک و خالق و رازق پر ہمارا یقین کمزور ہو گیا ہے جبکہ ہماری صفت تو یہ ہے کہ
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
یاد کیجیئے ایک قندیل ہماری اماں حاجرہ نے بھی عرب کے لق و دق صحرا میں روشن کی تھی جب وہ ننھے معصوم بچے اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں تشریف فرما ہوئی تھیں۔ کتنا کامل یقین تھا انہیں رب باری تعالیٰ کی مدد پر۔ اور پھر عالم نے دیکھا کہ اسی مقام پر نہ صرف ایک شہر ( مکہ مکرمہ) آباد ہوا بلکہ عالم اسلام کا روحانی مرکز وجود میں آیا ۔ آج امت مسلمہ میں نہ صرف ایمان محکم کی کمی ہے بلکہ حب دنیا غالب آ گئی ہے ۔ سستی، کاہلی اور عیش پرستی ان کا عام شیوہ ہے۔ دیانت دار قیادت کا فقدان ہے اور جب رہبر رہزن بن جائیں تو قافلے منزل کا پتا نہیں پا سکتے۔ اس وقت ۵۷ اسلامی ممالک ہیں مگر بد قسمتی سے زیادہ تر کی باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جو عالمی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ مصر، تیونس، شام، لیبیا اور یمن طویل عرصہ سے ایسے حکمرانوں کے ماتحت ہیں جو باطل قوتوں کی خوشنودی کے لئے اپنے ہی عوام کا خون بہا رہے ہیں۔ کشمیر و فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ برما و روہنگیا کے مسلمان مہاجرین کی صورت جگہ جگہ دھکے کھا رہے ہیں۔ آج دنیا میں جس قوم کی اکثریت مغلوب و مظلوم ہے وہ مسلمان ہے۔ مجھے بتا دیجیۓ ایسی کوئی قوم جو مسلمانوں کی محکوم ہو۔ اس کی وجہ ہماری باہم نا اتفاقی ہے۔ حیرت ہے کہ جن کے بہت سے خدا ہیں وہ اسلام کے خلاف متحد ہیں جبکہ خدائے واحد کے پرستار فرقوں، گروہوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے وسائل اور معدنی ذخائر کی دریافت کے لئے غیروں کے دست نگر ہیں جو ہمارے سرمائے کا بیشتر حصہ اسی بہانے ہتھیا لیتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے اب تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے تکنیکی اور تحقیقی ماہرین تیار نہیں کر سکے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ان سارے مسائل کا حل کیا ہے؟ ایک ہی آسان اور قابل فہم حل ہے کہ ہم علاقائی، گروہی اور لسانی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہم متحد ہو جائیں، اپنی قوتوں اور وسائل کو اکٹھا کریں۔ وہ مسلم ممالک جو مضبوط معیشت کے مالک ہیں وہ اپنا سرمایہ لگائیں جن کے پاس باصلاحیت اور ذہین نوجوان ہیں وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہنر سیکھیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں مہارت حاصل کریں، قدرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائیں، زیر زمین معدنی ذخائر دریافت کریں اور انہیں مشترکہ مفاد کے لئے استعمال کریں۔ تمام اسلامی ممالک مل کر اپنے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی طرز پر اپنی ایک تنظیم بنائیں۔ اپنی ایک فوج بنائیں جو محکوم مسلم ممالک کو آزاد کروانے کی تگ و دو کرے۔ ایسی سیسہ پلائی دیوار بن جائیں کہ دشمن درمیان میں سے نہ گزر سکے۔ قدرتی آفات اور اچانک حادثات کی صورت میں ایک دوسرے کے معاون ہوں، غیر مسلموں کے احسان مند نہ ہوں ۔ ان کی دولت اور تہذیب و ثقافت سے مرعوب نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت پر تہہ دل سے یقین رکھیں۔ ہر حال میں اور ہر لمحہ اسی سے مدد مانگیں جو دے کر احسان نہیں جتلاتا ۔ ان شاءاللہ عالم کفر ہم سے خوف زدہ رہے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ
اور نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو
سورہ آل عمران: آیت ۱۳۹
مومن ہونے کی شرط ہم پوری کر دیں غالب ہونے کا وعدہ اللہ تعالیٰ پورا کر دے گا کیونکہ وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اللہ کرے بحثیت قوم اس آیت کا مفہوم ہماری سمجھ میں آ جائے اور ہم اس پر عمل کرنے والے بن جائیں ۔ پھر کچھ بعید نہیں کہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو پا لیں ۔ بقول اقبال
یاد رفتہ میری یاد کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں