ٹرک ڈرائیور اور دُھند‎‎

جیسے ہی رات کے پہلے پہر اس نے اوکاڑہ جی ٹی روڈ کراس کر کے ساہیوال بائی پاس پر ٹرک چڑھایا سامنے دُھند کا کہرا دھواں سڑک پر یوں لپیٹیں لے رہا تھا کہ جیسے جنات کا کوئی بہت بڑا قافلہ گزر رہا ہو، جس نے جہازی قامت کے ٹرک کو بھی یوں لپیٹ میں لے لیا جیسے بادل کو ہوائیں اڑائے لیے جاتی ہیں۔

سامنے چند فٹ کے فاصلے پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ٹرک کی پرانی چھوٹی بتیاں بھی راستہ دکھانے میں ناکام ہو گئیں تھیں ، وہ بیچ سڑک پر ہونقوں کی طرح کھڑا ، پھٹی پھٹی آنکھوں اور ادھ کھلے منہ کیساتھ یہ سوچ رہا تھا کہ آگے قدم بڑھائے یا متبادل راستے کے لیے واپس ہو جائے، اس حال میں آگے قدم بڑھانا ایسے ہی تھا جیسے اندھیرے کی گہری کھائی میں اتر جائیں اور محض قیاس پر چلیں ، جو کہ کسی مدعو کیے ہوئے حادثے کا باعث بن سکتا ہے اور اس جہازی قامت ٹرک کو پیچھے موڑنا اس سے بھی خطرناک ہو سکتا تھا ، اس نے دھند کے اس جناتی ماحول میں اس مقولے پر عمل کرنا ذیادہ مناسب سمجھا کہ،،

پیچھے مڑ کے دیکھو گے تو پتھر ہو جاؤ گے

آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا، آیۃ الکرسی کا ورد کیا، اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور بریک سے پاؤں اٹھا کر ایکسیلیٹر پر رکھ دیا، گھمبیر خاموشی میں ٹرک کی گھوں گھوں کی آواز نے دھند کی لپیٹوں کو بھی دائیں بائیں اڑا دیا مگر وہ پلٹ کر پھر سے اسکے ساتھ لپٹ گئیں اور اس مجلگاتی ماحول میں کہرام مچا دیا، اب وہ “قدم پھونک پھونک کے رکھنا، کے مصداق چلتا جا رہا تھا، ایک انجانا خوف ہڈیوں میں پوست ہوتا جا رہا تھا، کچھ دیر کے بعد بیوپاری کی کالز آنا شروع ہو گئیں کہ صبح چار بجے تک احمد پور شرقیہ کی سبزی منڈی میں ہر صورت پہنچے، وہ تو وقت پر ہی پہنچنا چاہتا تھا، اچھی طرح جانتا تھا کہ وقت پر نہ پہنچا تو انعام کا ایک ہزار ملنا تو درکنار، ٹرک کا کرایہ بھی مشکوک ہو جائے گا۔ لیکن راستہ سجھائی نہ دیتا تھا اور ٹرک کی روشنیاں بہت مدھم تھیں ۔

“یا اللہ اب کہ کرایہ ملا تو ضرور ہی بڑی سرچ لائٹ لگوا لوں گا، اب کی بار وقت پر پار لگانے کا کوئی معجزہ کر دے، اس نے دل ہی دل میں اللہ کو پکارا،،،،

ہر آنے والا لمحہ اسے پریشان کیے جا رہا تھا، کبھی وہ گھڑی کی طرف دیکھتا اور کبھی سامنے سڑک پر دیکھنے کی ناکام کوشش کرتا، کچھ ثانیے بعد اسے اپنے پیچھے ہلکی سی روشنی دکھائی دی اور ساتھ ہی کسی گاڑی کی مدھم آواز، اس نے انداذہ لگایا کہ آواز کافی دور سے آنے والی بڑی مسافر بس کی تھی جو کچھ ثانیوں میں اس تک پہنچنے والی تھی، اور واقعی کچھ ہی دیر میں دھند کو چیرتی ہوئی اس بڑی جسامت والی بس کی سرچ لائٹ میں سامنے کی ساری سڑک واضع نظر آنے لگی، وہ اعتماد سے زرا رفتار بڑھا کے چلنے لگا، مگر یہ سب چند لمحوں کے لیے ہی ہے جیسے ہی بس اسے کراس کر کے گزر جائے گی اس کے لیے راستہ پھر اندھیر ہو جائے گا، پھر ایک خیال اسکے ذہن میں آیا اور اس نے سوچا یہی وہ لمحہ ہے جسے پکڑ لیا تو پار ہو جاؤں گا ۔ جیسے ہی بس کا ہارن بجا اس نے راستہ دیا اور وہ اسے برق رفتاری سے کراس کر کے گزری اس نے بھی ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھا اور اسی رفتار سے ٹرک کو دوڑا لیا، بس کی سرچ لائٹ اسے غیبی مدد کی طرح لگی جس کی روشنی میں اس نے بس کی رفتار کیساتھ ہی سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک ڈایوو بس تھی جو لاہور سے کراچی جا رہی تھی، اس نے ایکسیلیٹر کو دبائے رکھا کہ بس کے قریب رہے اور اسکی روشنی میں سفر جاری رکھے، بس کی رفتار بہت زیادہ تھی اور اس نے برابر اپنے ٹرک کو چلائے رکھا۔ کافی دیر بعد بس کی رفتار اور تیز ہو گئی، اس نے بھی زور مارا اور رفتار مزید بڑھا لی، پھر کچھ وقفے کے بعد بس مزید تیز ہو گئی اور ساتھ ہی ٹرک کی رفتار بھی۔ پھر کئی گاڑیاں اسے اپنے پیچھے تیز رفتاری سے آتی اور راستے کے لیے ہارن دیتی سنائی دیں، گویا سب ڈایوو کی سرچ لائٹ میں راستہ دیکھ رہی تھیں، اور ڈایوو ایک مینارہ نور کی طرح مسلسل دوڑتی چلی جا رہی تھی اور دوسری گاڑیاں اسکے ٹرک سمیت بھٹکے ہوئے مسافروں کی طرح اس سے راہنمائی لے رہی تھیں۔

بس والا اپنی دُھن میں چلا جا رہا تھا اور ٹرک ڈرائیور نے بھی رفتار بڑھائے رکھی کیونکہ رفتار کم رکھنے کا نتیجہ وہ روشنی کھو دینا تھا جس میں وہ سفر کر رہا تھا۔ پھر اسی کشمکش میں آدھا گھنٹہ گزر گیا اور انکے راستے الگ کرنے والا موڑ آ گیا۔ وہ اپنا موڑ مڑا ہی تھا کہ سڑک پر کافی گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دھند بھی کافی چھٹ گئی تھی، رات کا پچھلا پہر چل رہا تھا اور سڑک پہلے سے صاف دکھائی دینے لگی، اب وہ مشکل سے نکل آیا تھا، اس نے سفر مناسب رفتار سے جاری رکھا اور بالآخر سبزی منڈی وقت سے پہلے پہنچ کر بیوپاری کو حیران کر دیا، جو کہ دھند میں دیر سے پہنچنے والے ٹرک ڈرائیوروں کا انعام اور کرایہ ہڑپ کر چکا تھا۔۔۔۔

ہائیں ! تم کوئی بھوت ہو یا جن، وقت پر پہنچ گئے، اس نے آنکھیں جھپکائے بنا کہا،

ڈرائیور اپنے سر پر لپٹا اونی مفلر اتار کر جھاڑنے لگا اور مسکراتے ہوئے کہا۔

“جی”

بادل ناخواستہ بیوپاری نے کرایہ اور انعام دینے کے لیے اپنی جیب ٹٹولی اور ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکال کر کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اسے تھما دیے،

احمد پور شرقیہ کی سبزی منڈی میں آج سردی کچھ زیادہ ہی ہے، ڈرائیور نے اس کے کپکپاتے ہاتھوں سے پیسے وصول کرتے ہوئے کہا۔