فکری مسائل امت مسلمہ کے لئے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ نت نئے فتنے، تحریکیں، ازم، این جی اوز، مغربی لابی امت مسلمہ کی بقاء کے درپے ہیں۔دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو وقت،صلاحیتیں اور توانائیاں، امت نے ان فکری مسائل کے حل کے لئے صرف کرنا تھیں، لادینیت کے آگے بند باندھنے میں صرف کرنا تھیں۔ وہ ٹک ٹاک،فیس بک، یوٹیوب پر لغو چینل بنانے اور مادیت پرستی کا شکار ہو چکی ہیں، سودی نظام کے تباہی کن اثرات کی لپیٹ میں بہت سے ممالک ہیں، مادیت پرستی نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نوجوانوں سے چھین لی ہے، وہ ہر بات مفاد کے نقظہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم، کہ دو تہذیبوں کی یہ فکری جنگ کسی ایک کا پلڑا ہی جھکائے گی۔
ہمیں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر چند کہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے مگر جب ہمیں ذہنی طور پر ہی غلام بنا لیا جائے گا، ہماری فکر ہی زنگ آلود کر دی جائے گی، ہماری سوچ ہی مادہ پرست ہو جائے گی، ہمیں ففتھ جنریشن وار کے ہتھکنڈوں کا ہی شعور نہیں ہو گا، پروپیگنڈہ کے توڑ کی بجائے نادانستگی میں اس جنگ میں غیروں کی صف میں ہمارا شمار ہو گا تو اسلام کیسے ابھرے گا،ایک تہذیب جب دوسری کو ذہنی غلامی کے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے تو مغلوب تہذیب کو تباہی کے دہانے پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ نے تو اپنا دین قائم رکھنا ہی ہے وہ تو اپنے دین کو بچانے کی تدبیر کر ہی لے گا مگر ہم بات کر رہے ہیں کہ بحیثیت امت مسلمہ کے فرد ہونے کے ہم تہذیبی کشمکش کے اس پُرفتن دور میں کس گروہ کا حصہ بن رہے ہیں.
ہماری فکر کیا ہے؟ یقینا، قرآن اور سنت کا احیاء، باطل کی چالوں کا علم اور ان کا توڑ کرنا ہمارے ذمے قرض ہے جس طرح سیکولر ازم، سوشلزم اور کیپٹل ازم کا توڑ ایک فکری مجاہد “امام مودودی رحمتہ” نے کمال حکمت اور دانائی سے کیا اور تہذیب حاضر کی چمک کو بے نقاب کیا۔ ہم خود باطل کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور فتنوں میں پڑنے سے بھی خوف کھاتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی جماعت سے جڑ جانے کی ضرورت ہے جو ہماری دیانتدارانہ رائے کا مطابق باطل کی چالوں کو سمجھتی اور اس کا مقابلہ کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔
ایک طرف امت کے فکری مسائل ہیں تو دوسری طرف عملی مسائل نے بھی امت کو گھیر رکھا ہے۔ کشمیرفلسطین، شام، افغانستان، برما اور بے شمار ممالک ہیں جہاں باطل نے ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے اور وہ کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں۔ سر دست، حکومت پر الزام دھر کر آپ اپنے انفرادی فرض سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ کیا آپ ایسی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں رہے ہیں جو باطل کا سر توڑ دے،جو مظلوم بہن بھائیوں کی آواز پر لبیک کہے؟ کیا آپ کے ووٹ ذاتی مفاد، عصبیت، بھیڑ چال کا شکار تو نہیں ہو گئے؟ کیا آپ نے سماجی، معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر رکھا ہے تہذیب مغرب اور تہذیب باطل کا؟ کیا آپ کی پسند، نا پسند، رہن، سہن، ترجیحات آپ اپنی آزاد فکر سے طے کرتے ہیں یا نام نہاد ‘اسٹیٹس’ اور میڈیا کی ذہن سازی کے نتیجے میں طے کرتے ہیں؟۔
کیا آپ اپنا ٹرینڈ، اپنی کمپین، اپنا لوگو، اپنی تہذیبی شناخت پر شرم محسوس نہیں کرتے؟ جب ایسا ہے اور یقیناً ہے تو ہم کشمیری، فلسطینی، شامی، برما کے بچوں، بوڑھوں، عورتوں کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے خود مجرم ہیں۔ یقینا ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور سہل طریقے سے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا۔ ہمیں سیرت النبی صہ،غزوات اور مدینہ کی فلاحی ریاست کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ہمیں منافقین، مشرکین کے پیدا کردہ فکری مسائل مثلا افواہ سازی، بہانے بازی، جھوٹ، دھوکہ دہی سے آگاہی بھی ملے گی اور فکری مسائل سے نکلنے کی تدبیر بھی سجھائی دے گی۔ ہمیں عملی طور پر چاروں طرف سے گھرے مسلمانوں کی حکمت عملی کا مطالعہ،کہ کس طرح انہوں نے اسلام اور خود اپنی بقاء کی جنگ لڑی اور کس طرح ہم وقت کے مسائل میں ان سے رہنمائی لے سکتے ہیں، کے بارے میں میں پتہ چلے گا۔آخر کب تک باطل ہمیں دہشت گرد کہہ کر حق سے موڑتا رہے گا اور کب تک ہم مصلحتوں کی نقابیں اوڑھے رہیں گے، اس کا جواب بھی ہمیں ڈھونڈنا ہو گا۔ اللہ ہمیں امت کے مسائل کا درد آشنا اور مسیحا بنائے۔ آمین