زمین اللہ رب العزت کی بےشمار و ان گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یوں تو مکمل کرہ ارض ہی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ بنی نوع انسان کے لیے بچھونا ہے مگر اللہ تعالی نے اپنی زبردست حکمت کے تحت اس کے بعض خطوں کو بعض دوسروں خطوں پر فضیلیت بھی عطا کی ہے۔ انہی فضیلیت والے خطوں میں ایک خطہ شام بھی ہے۔
یہ خطہ عہد نبوی ﷺ میں موجودہ شام (سوریہ) لبنان، فلسطین اور اردن پر مشتمل تھا۔ متعدد قرآنی آیات اور احادیث نبویہ ﷺ میں اس کی فضیلیت بیان کی گئی ہے۔ سورہ انبیاء آیت 70-71 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔: گو انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مکر کا ارادہ کیا لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا اور ہم نے ابراہیم اور لوط علیھم السلام کو نجات دے کر اس سرزمین پر پہنچا دیا جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔“
تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ برکت والی سرزمین شام ہے۔ اہل علم اس سرزمین کے بابرکت ہونے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اسی سرزمین کو ابراہیم علیہ السلام کی جائے ہجرت منتخب فرمایا اللہ تعالی نے اسی سرزمین پر بہت سارے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، الیاس علیہ السلام، الیسع علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحیی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام نے اسی سرزمین کو اپنے نور نبوت سے جگمگایا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا۔ ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ کے ساتھ معروف ہے اور دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لے کر تجارت کی غرض سے۔ اس سرزمین کے بابرکت ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اسی پر اللہ کے تین مقدس گھروں میں سے ایک گھر واقع ہے اور وہ بیت المقدس یعنی مسجد اقصی ہے۔ (یاد رہے ماضی میں فلسطین ملک شام ہی کا حصہ شمار ہوتا تھا)۔ مسجد اقصیٰ کی اہمیت و فضیلیت روز روشن کی طرح عیاں ہے اس کے بابرکت ہونے کا ذکر قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ یہی مقام معراج ہے۔ اسی مسجد میں ہمارے پیارے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ تحویل قبلہ کے حکم سے پہلے تک مسلمان اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی اقتدا میں اسی مسجد کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔
قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ سر زمین شام کی فضیلت نبی رحمت کی زبانی بھی بیان ہوئی۔ جیسا کہ
بخاری شریف کی حدیث ہے: ’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا، ان کو رسوا کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں میں سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا پائے گا اور قیامت تک وہ اسی حالت پر ثابت قدم رہیں گے، روایت کے راوی حضرت عمر بن ہانی مالک بن یخامر کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا یہ لوگ ملک شام میں ہوں گے۔‘‘
انہیں آیات قرآنی اور احادیث نبویہ محمد صلى الله عليه واله وسلم کی وجہ سے صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی ایک بڑی تعداد نے شام کو اپنا مسکن بنایا۔ شام اور اس کے اردگرد کے خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے زیادہ مرغوب تھا۔
سرزمین شام پر جگہ جگہ انبیاء (علیہم السلام) مدفون ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جو مدینہ و مکہ کے بعد صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کے لیے ابدی آرام گاہ ہے۔ تابعین و تبع تابعین اور ان کے بعد کے ادوار کے اولیاء و ائمہ و علماء و شہداء و مجتہدین ، قائدین اور سلاطین اور اسلام کیلئے ہر طرح کی عظیم خدمات پیش کرنے والی بے شمار عظیم شخصیات اس مقدس سرزمین میں دفن ہیں۔
ماضی میں انبیاء اکرام، اصحابؓ رسول محمد صلى الله عليه واله وسلم اور عظیم فرزندان اسلام کی مسکن و مدفن یہ سرزمین آج ایک عظیم عالمی بحران سے دوچار ہے۔ حالیہ شام (دارالحکومت دمشق) بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے اور جسد مسلم کو بین الاقوامی طاقتیں مسلسل نوچ رہی ہیں۔ فلسطین (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہودی ناجائز ریاست اسرائیل اپنی من مانیاں کر رہی ہے۔ مسجد اقصی جیسی قیمتی متاع پنجہ یہود کے قبضے میں ہے۔
قدرتی گیس سے بھرے سمندر ان گنت وسائل اور اثاثوں والا ملک لبنان (دارالحکومت لبنان) جسے کبھی مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ اور تمام عرب ممالک کا پیارا کہا جاتا تھا معاشی و سیاسی عدم استحکام کا شکار دیوالیہ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اردن (دارالحکومت عمان) جہاں وفاداریاں مسجد اقصیٰ سے زیادہ صیہونیوں کے ساتھ ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مقدس و بابرکت سرزمین شام میں اس وقت گہری سیاہ رات چھائی ہے۔ مسجد اقصیٰ جیسی قیمتی متاع کی حامل یہ سرزمین مشرکوں کے ناپاک اقدامات کی زد میں ہے۔ علم توحید کی نگاہیں دنیا بھر کے ستاون اسلامی ممالک اور 1.9 بلین مسلمانوں کی جانب لگی ہیں کہ کون اسے یہاں ایک بار پھر سربلند کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔
ضرورت ہے کہ مسلم امہ من حیث القوم کرکٹ اور فٹ بال ورلڈ کپ کے سحر سے باہر ائے۔ اپنی اپنی ملکی سیاست کے بے مقصد و بے سمت مباحث سے دامن چھڑائے۔ ذاتی اصلاح و فلاح سے ایک قدم آگے بڑھائے۔
جانے کہ ہمارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرزمین پر اس وقت کون، کون سا بھیانک کھیل کھیل رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ جہاں سے ہمارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کو معراج کے لیے بلایا گیا، جو ہمارا پہلا قبلہ جس کی طرف شد رحال کرنا مشروع ہے، پنجہ یہود کی گرفت میں کیسے اور کیوں ہے؟ سرزمین شام کا بحران ہماری کن کن بداعمالیوں اور یہود و نصاری کی کن کن سازشوں کا نتیجہ ہے؟
ہم بحیثیت مسلمان جان لیں کہ سرزمین شام پر موجود مسجد اقصی کی یہود کے ناپاک عزائم سے حفاظت اور اس کی آزادی کے لیے جدوجہد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایک ایسا فرض جس میں آج کی گئی کوتاہی کے لیے کل کوئی کفارہ نہیں۔