دنیا میں ہر مخلوق سب سے زیادہ محبت اپنی اولاد سے کرتی ہے۔ انسان بھی سب سے زیادہ محبت اپنی اولاد سے کرتا ہے جس کے لیے وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اولاد کے دکھ اسے بے چین کر دیتے ہیں۔ اولاد کی تکلیف اسے کسی پل سانس نہیں لینے دیتی۔ اولاد کی خوشی کے لیے وہ خود ہر تکلیف اٹھانے کو تیار ہوتا ہے۔
پھر آخر ایسی کیا وجوہات ہوتی ہیں کہ جن کی بنا پہ وہ ہی انسان اپنے ہاتھوں اپنی معصوم اولاد کی جان لے لیتا ہے۔ زندگی کی ساری تگ و دو جس گھر کو معاشرے کے لیے مثال بنانے کے لیے ہوتی ہے اسے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ جس اولاد کے پیدا ہوتے ہی اس کے لئے خواب بننا شروع کرتا ہے انہی خوابوں کو تار تار کر دیتا ہے۔ آج ہم معاشرے میں چاروں طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہنستے بستے گھر خود مکینوں کے ہاتھوں تباہ ہو رہے ہیں۔کراچی جیسے پُر رونق شہر میں اگر سڑکوں پر لُٹنے کا خوف ہے تو گھر میں دم توڑتی اقداریں گھر کا سکون برباد کرنے کے درپے ہیں۔
جو ماں باپ اپنےبچوں کی خواہشات، تعلیم اور شادی کے اخراجات کے لیے ہر تکلیف اٹھاتے ہیں، اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، بیماریوں اور تکلیفوں کو سہتے ہیں، وہ کس طرح اپنے بچوں کے گلے گھونٹ دیتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پاؤں چادر سے باہر نکل جاتے ہیں اور پاؤں کو چھپانے کے لیے نئی چادر کا انتظام کرنے میں ناکام ہو جانے پر دورِ جاہلیت کی طرح اولاد کی جان لے لینا آسان حل لگتا ہے۔
اپنا سارا وقت اولاد کی آسائشوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کے بجائے ان کی تربیت کے لیے مختص کریں۔ زندگی کا اتنا ہی بوجھ اٹھائیں کہ آپ اٹھا کر چل سکیں۔ دنیا کے مال و متاع کی حرص اتنی نہ ہو کہ آپ صحیح، غلط، جھوٹ، سچ، اچھے اور برے کی پہچان ہی کھو دیں۔ پھر آپ ایسی منزل پہ پہنچ جائیں کہ زندگی کے بوجھ آپ کو مرنے اور اپنے پیاروں کو مارنے پر مجبور کر دیں۔ قناعت، صبر، برداشت صرف کتابی باتیں نہیں بلکہ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں، جن کو ہم خود ہی فراموش کر چکے ہیں تو اپنی اگلی نسلوں میں کیسے منتقل کریں گے۔
اپنی زندگی کے کچھ مقاصد طے کیجیے۔ اپنے لیے بھی اور اپنی اولاد کے لیے بھی۔ مقاصد کا چناؤ بھی ایسا ہو جو آپ کی اور آپ کے اہل و عیال کی دنیا اور آخرت کو سنوار سکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تھی: “اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھی بھلائیاں عطا فرما اور آخرت کی بھی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔” یہ دعا ہمارے معمولات میں تو ہے لیکن ہمارے مقاصد میں نہیں۔ ان بھلائیوں کو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا مقصد بنائیں۔
دنیا کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کی زندگی میں کوئی غم، کوئی تکلیف، کوئی دکھ نہ ہو۔ اگر آپ کو اپنے ارد گرد لوگ خوش اور خوشحال نظر آرہے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ انہوں نے ساری تکلیفوں کے ساتھ خوش رہنا سیکھ لیا ہے۔ آپ بھی یہ گُر سیکھ لیں۔ شکر ادا کرنا سیکھیں اللّٰہ کا بھی اور لوگوں کا بھی۔ اپنے بچوں سے محبت کریں، ایسی محبت جو انہیں مضبوط بنائے اور زندگی کے نشیب و فراز میں آپ کا سہارا بنائے۔
اپنے وسائل میں جینا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔ زندگی میں محنت کو اپنا شعار بنائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کو عادی بنائیں۔ اپنی عبادات کو بہتر بنائیں۔ اللّٰہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں اور اپنے رب سے مانگیں وہ سب کچھ جو آپ دنیا کی زندگی میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں۔
صحیح راستے پر قدم اٹھائیے، منزل پر پہنچ کر سرخرو ہوں گے۔ اور سفر کی تھکان بھی بھول جائیں گے۔ اگر راستے کا چناؤ غلط ہو تو منزل پہ پہنچ کر بھی منزل نہیں ملے گی اور تھکن تو بہرحال ہر سفر میں ہوتی ہے۔