اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ زکریا علیہ السلام،ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اس نعمت سے نوازا گیا تو ان کا احساس کمتری مٹانے کے لئے نہیں بلکہ دین حق کی ترویج کے واسطے۔ یہ وہ نعمت ہے جو آزمائش کا بنیادی، لازمی اور پیچیدہ پرچہ ہے، دقیق مضمون ہے اور اس کی تربیت یعنی پرچے کے پریکٹیکل میں کامیابی حاصل کرنے کا مرحلہ بھی بہت کم لوگ طے کر پاتے ہیں اور وہی اولاد جو ان کے لئے صدقہ جاریہ بن سکتی تھی محض تربیت کی کمی کی وجہ سے وبال جان بن جاتی ہے۔
جس طرح صاحبِ اولاد ہو کر بھی پہچان اور تعارف کا ذریعہ ضروری اولاد نہیں ہوتی بالکل اسی طرح بے اولاد کی پہچان، تعارف اور دنیا میں نام زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ اس کے اچھے اعمال،اس کے الفاظ، اس کے لکھے اور اس کے فلاحی کاموں غرض رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کیے گئے کاموں کو بنا دیتا ہے۔ بے شک اللہ کسی کی عزت کو اس لئے گھٹنے نہیں دیتا،کسی کی شان میں اس لئے کمی نہیں آنے دیتا کہ وہ نعمت اولاد سے محروم رکھا گیا ہے اور نہ ہی کسی کی عزت اس لئے بڑھاتا ہے کہ وہ کثیر الاولاد ہے، ہاں اولاد دین کے لئے اپنا آپ وقف کر چکی ہو تو والدین کے لئے باعث سعادت ضرور ہے۔
اگر آپ ان افراد کو جن کے پاس اولاد جیسی نعمت نہیں ہر وقت محرومی کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک بار سوچئے تو سہی کہ کیا بے اولاد بے شناخت ہو تا ہے؟ کیا اولاد دنیا میں نام شامل کرنے کا واحد ذریعہ ہے؟ کیا بے اولاد لوگ جتنے بھی صالح اور بڑے کارنامے انجام دے گئے، فلاحی کاموں کا صدقہ جاریہ چھوڑ گئے کیا ان کا نام دنیا میں شامل ہونے سے اس وجہ سے رہا کہ وہ بے اولاد تھے! خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ماریہ قبطیہ(لونڈی) کے سوا کسی زوجہ سے آپ ﷺ کی اولاد نہیں ہوئی تو کیا وہ تمام امہات بے شناخت رہیں؟ نہیں بلکہ وہ بے اولاد ہو کر بھی اُمہات کے درجے پر فائز کر دی گئیں اور صالحیت کی بنیاد پر شناخت پا گئیں۔ نبی کی بیوی ہونا ان کی شناخت کا باعث ہوتا تو لوط علیہ السلام کی بیوی پیچھے رہنے والوں میں شامل نہ ہوتی۔ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام دنیا میں شامل ہونے سے رہا! کیا ان کی دین کے لئے خدمات نے صاحب اولاد کو ان کی عظمت کے اعتراف پر مجبور نہیں کیا! کیا ہم اس بے اولاد خاتون کے احسان کا قرض ادا کر سکتے ہیں! قیامت تک کے لئے کیا عبدالستار ایدھی اور حکیم محمد سعید کے کارہائے نمایاں اور ملت کے لئے ان کی خدمات سے دنیا اس لئے نا واقف رہی کہ ان کی اولاد نہ تھی؟ نہیں نا!تو پھر ہم کیسے بے اولاد کو یہ احساس دلانے میں درست ہیں کہ اولاد ہوگی تو خاندان کا نام عزت سے لیا جائے گا اور سکون کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ کیا نوح علیہ السلام کی نا فرمان اولاد نے ان کا نام روشن کیا! نہیں،بلکہ ان کی صالحیت نے انہیں پہچان دی۔
سورہ شوریٰ میں آتا ہے: اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔۔
بے شک بے شناخت وہی ہے جس کا کوئی نام لیوا نہ ہو اور افسوس کہ بہت سی اولاد رکھنے والوں کا نام لیوا اب کوئی نہیں اور بہت سے بے اولادوں کا نام زندہ ہے۔اللہ تعالیٰ دانش سمیت تمام نعمتوں سے ہر کسی کونوازے۔ آمین