کراچی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسی آگ میں دھکیلا جارہاہے، جہاں شہریوں کے لئے بنیادی ضروریات تو دور کی بات ان سے جینے کا حق بھی چھین لیاجائے۔ کئی دہائیوں سے قائم شدہ بستیاں حکومتی ایماء پر مسمار کی جارہی ہیں تو کہیں رئیل اسٹیٹ اور بلڈرز کے ہاتھوں عوام سے انکی خون پسینے کی کمائی چھینی جارہی ہے۔ مہنگائی بے روزگاری بے لگام ہے تو کہیں اسٹریٹ کرائم جیسے آسیب شہریوں کی زندگیوں پر مسلط کئے جارہے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے کوئی جنگل کا قانون ہے۔ جس کا دل چاہتاہے اسلحے کے زورپر نہتے شہریوں سے مال اور جان چھین لیتاہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کچھ روز قبل این ای ڈی کے طالب علم کو اسکی جامعہ کے سامنے موبائل فون چھننےپر مزاحمت کےدوران دہشت گردوں نے گولیاں مار کر شہید کردیا۔ انجینئرنگ کے طالب علم 21 سالہ بلال نے ڈکیتی میں مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو ڈاکوؤں نے اس پر گولی چلا دی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ مقتول این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پیٹرولیم انجینئرنگ کے آخری سال کا طالب علم تھا۔ اس واقعہ کےفوری بعدشہر قائد میں ڈکیتی مزاحمت پر ایک اور طالب علم جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کورنگی نمبر 5 میں 20 سالہ نوجوان اظہر کو ملزمان نے پندرہ ہزار کے موبائل کے لیے مارڈالا۔ چار دن کے اندر یہ دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اظہر لاء کا طالب علم تھا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ کیا کراچی کے بچے اسی طرح اپنے مال و اسباب سے لٹاتے اور اپنی زندگیاں گنواتے رہیں گے؟
پاکستان ٹوڈے کی ایک ماہ قبل رپورٹ کے مطابق سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (CPLC) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے مالیاتی مرکز کو اسٹریٹ کرائم کی لعنت میں خطرناک حد تک اضافہ کا سامنا ہے اور اکتوبر کے مہینے میں ڈکیتی و دیگر وارداتوں میں مزاحمت کرتے ہوئے 57 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں 211 کاریں چھینی یا چوری کی گئیں جن میں سے 49 چوری یا چھینی گئی کاریں پولیس نے برآمد کر لیں۔ ایک ماہ کے دوران 5000 کے قریب موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی گئیں جن میں سے صرف 323 برآمد ہو سکیں۔ سی پی ایل سی نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، 2260 افراد سیل فونز سے محروم تھے، جن میں سے 39 کو بازیاب کر لیا گیا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ متعدد واقعات میں 57 افراد ہلاک ہوئے جب کہ اس دوران اغوا برائے تاوان کے دو واقعات رپورٹ ہوئے۔ پولیس کے مطابق ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ سندھ میں سیلاب کے بعد کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں “خطرناک اضافہ” دیکھنے میں آیا ہے۔
حکمرانوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتےہوئے فوری طور پرکراچی کے حالات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ اس ملک کے معاشی حب کراچی ہی سے پورے ملک کی معاشی ترقی کی ڈوریں جڑی ہیں۔ اس شہر کے دشمن دراصل اس ملک کے دشمن ہیں۔ اس شہر بےبےاماں کو دہشت گردی سے بچانا اور شہریوں کے حقوق کی ادائیگی، قانون کی بالادستی، غربت پر مکمل کنٹرول اور فحاشی کے خاتمےکی کوششیں حکمرانوں کواپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنی ہوں گی تاکہ کراچی کو پھر سے روشنیوں اور امن کا شہر بنایاجاسکے۔