ہمت اور حوصلے کی تصویر محمد علی جناح بات کے کھرے اور دھن کے پکے تھے، مضبوط ارادوں کے مالک اور ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتے تھے،
ایک طرف مسلم قوم کی زبوں حالی اور دوسری طرف انکی اعلیٰ تعلیم نے انہیں عملی شحص بنادیا، حالات کو جانچنے کی صلاحیت دے دی، کمزور لوگوں کے لیے ہمدردی اور انکے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا احساس پیدا کر دیا،
انگریزوں کی چالاکیاں، ہندوں کی سازشیں اور انکی اپنی کمزور صحت انکے راستے کی کبھی دیوار نہ بن سکی، کچھ کرنے اور کچھ کر دکھانے کی لگن مسلسل انہیں حرکت میں رکھتی تھی۔
اقبال کے خواب کو عملی شکل دینے کے بعد مملکت خداد کی بقا و استحکام کے لیے قائد اعظم نے تین اصولوں کو لازمی قرار دیا
ایمان۔ اتحاد۔ تنظیم
قائد کے نزدیک حالات کا دھارا بدلنے کے لیے مسلسل کام، کام اور صرف کام ہی واحد حل رہا، انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد کی اور دوسروں کے لیے بھی اسی چیز کو پسند کیا۔
علامہ اقبال کی طرح قائد اعظم کو بھی نوجوانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، وہ اپنے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور باشعور دیکھنا چاہتے تھے، جو اپنی تعلیم اور فہم و فراست سے قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
جو ظلم و زیادتی کے خلاف ڈٹ جانے کی ہمت و حوصلہ رکھتے ہوں، جو قوم کی سوئی تقدیر بدل سکیں۔
آج وطن عزیز کو ایسے ہی نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے، جو اقبال کے خواب ” پاکستان ” کو بچا سکیں جو قائد کی انتھک محنت ” پاکستان” کی حفاظت کر سکیں، جو دنیا میں پاک سر زمین کی مثبت تصویر کشی کر سکیں، جو پاکستان کی خوب صورت پہچان بن سکیں ۔