اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ ہماری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق اس میں رہنمائی موجود ہے۔ دینِ اسلام کے تصور کے مطابق انسان اس دنیا میں مختصر وقت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہ دنیا اس کے لیے دار الامتحان ہے۔ اب اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوگا جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے گا۔
موجودہ دور میں انسانیت، پیارو محبت اور مذہبی رواداری جیسے خوبصورت نعرے لگا کر اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے کافی سادہ مسلمان اس جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب مسلمانوں کو ہولی، دیوالی یا کرسمس وغیرہ جیسے غیر مسلم مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے یا ان کی مبارکباد دینے سے منع کیا جاتا ہے تو وہ طرح طرح کے بے جا اعتراضات کرکے اسلامی تعلیمات سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس مسئلے کے متعلق اسلامی تعلیمات روزِ روشن کی طرح واضح ہیں۔
1. نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو غیروں کے طریقوں پر عمل کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
2. اسی طرح سنن بیہقی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ مشرکین کی عید کے دن ان کے کنائس میں داخل نہ ہوا کرو ، اس لیے کہ ان پر غضب نازل ہوتا ہے۔
3. اس کے علاوہ کفار کے ساتھ ان کے تہواروں میں شرکت یہ گناہ کے کام میں تعاون و مدد کرنا ہے اور گناہوں میں تعاون قرآنِ کریم کی رو سے ممنوع ہے (المائدہ:2) ۔
اب کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تو پیارو محبت کا سکھاتا ہے اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ تو اگر مسلمان مبارکباد نہیں دیں گے یا شریک نہیں ہوں گے تو اس سے نفرت پھیلے گی۔
دیکھے! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے اور پیار ومحبت سکھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام آسانیاں پھیلانے کی ترغیب دیتا ہے اور تنگی کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس انسانیت، پیار ومحبت اور آسانی کی حدود بھی اسلام ہی مقرر کرے گا۔ اس بات کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہوگی کہ کوئی اسلام کی آسانی کو بنیاد بناکر اپنی عقل و فہم کی بنیاد پردرست و غلط فیصلے کرے۔ اب جب اسلام نے اجازت نہیں دی تو ہمیں بغیر کسی چوں چرا کے اس بات کو ماننا چاہیے۔
اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کسی غیر مسلم کو دیوالی یا کرسمس کی مبارک نہ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات میں غیر مسلموں کے حقوق موجود نہیں ہیں۔ دراصل ہمیں کسی سازش کا شکار ہونے سے پہلے سکے کے دونوں رخ دیکھنے پڑیں گے، کیونکہ اس کے بغیر ہم حقیقت کو نہیں جان سکتے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ذمی غیر مسلم کی جان و مال بلکل اسی طرح محفوظ ہے جس طرح ایک مسلمان کی جان و مال محفوظ ہے۔ ایک ایسا غیر مسلم جو اسلام کے خلاف سازش نہیں کرتا اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ایک اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ تو کیا یہ حقوق کا تحفظ نہیں ہے؟
دوسری طرف اسلام مسلمانوں کو ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لیے یہ قطعًا لائق نہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوئے شعائرِ کفر میں جا شریک ہو۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شرکت کرنے سے کافی سارے نقصانات ہوں گے۔ جیسے، برے کام میں ان کی مدد ہوجائے گی، کفار اس کو برا نہیں سمجھیں گے وغیرہ۔
باقی یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ ہندو ودیگر کفار تو ہمیں عید وغیرہ کی مبارکباد دیتے ہیں تو ہم ان کو مبارکباد کیوں نہیں دے سکتے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان کے مذہب نے ان کو اجازت دی ہے اور ہمارے دین نے ہمیں اجازت نہیں دی۔ چنانچہ وہ اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہیں اور ہمیں اپنے دین پر عمل کرنا چاہیے۔
مختصر یہ کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ غیر مسلموں کو ان کے مذہبی تہواروں کی مبارکباد دے یا ان میں شرکت کرے۔