تحائف دینا بہت اچھی بات ہے، سنت بھی ہے اور باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ بھی۔ آپ اپنے بہن بھائیوں کو، والدین کو ہدیہ دیتے رہتے ہیں۔ بہت خوب۔ گویا آپ صلہ رحمی کرنا جانتے ہیں اور پائیدار تعلقات کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ کے قرابت دار آپ سے محبت کریں، عزت دیں، احترام کریں اور آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ آپ اپنے دلی جذبات کی تسکین کے لئے اپنی استطاعت سے بڑھ کر تحائف دیتے ہیں مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا فہم اپنے اقارب سے تعلق نبھانے اور ان کے جذبات کو تسکین بخشنے کے لئے تو بخوبی کام کرتا ہے مگر جب بات نصف بہتر(بیوی) کے اقارب کی آتی ہے تو یہی لوگی شح نفس کا شکار نظر آتے ہیں۔
کیا یہ رویوں کا تضاد نہیں؟ آپ کو اپنے بہن بھائیوں کی ضروریات سے تو مکمل آگاہی ہے، ان کے جذبات کی قدر کرنا تو خوب معلوم ہے مگر بیوی پر خرچ کرنا آپ کو گراں گزرتا ہے، گن گن کر خرچ کرتے ہیں اور بیوی کے اقارب کے لئے تحائف دینا تو آپ بالکل اسراف سمجھتے ہیں۔ کیا بیوی اپنے اقارب کے لئے ویسے ہی نرم گوشہ نہیں رکھتی جیسے آپ اپنے اقارب کے لئے رکھتے ہیں؟ کیا بیوی کے دلی جذبات کی تسکین کے لئے اس کے اقارب سے حسن سلوک اور ہدیہ دینا آپ کی بیوی کے دل میں آپ کی قدر کئی گنا بڑھا نہ دے گا؟ آپ کو اپنی بہن کے ہاں جاتے ہوئے تو سارے رسموں سے آگاہی ہوتی ہے مگر بیوی کے والدین کے ہاں جاتے آپ کو پھل کا تحفہ دینا بھی گراں گزرتا ہے یا آپ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
سر دست، اس جاہلیت اور فرسودہ سوچ کو ذہن سے نکال کر پھینک دیں کہ لڑکی کو اپنے نکاح میں لے کر آپ نے اس پر اور اس کے والدین پر احسان عظیم کیا ہے۔ نکاح کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جذباتی، نفسیاتی اور اخلاقی تعلق میں بندھ جاتے ہیں اور اس تعلق کی مضبوطی کے لئے شعوری کوشش نہ کی جائے اور مسلسل دوسرے فریق کی جذباتی اور نفسیاتی تسکین سے اغماض برتتے رہیں اور اخلاقی لحاظ سے جو کچھ کر سکتے ہوں وہ نہ کریں تو کچھ عرصہ تو بیوی آپ کے اقارب سے آپ کی دلچسپی ومحبت کو محبت پاش نظروں سے دیکھے گی اور رشتوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو گی مگر جلد ہی اسے یہ احساس چین نہیں لینے دے گا کہ میں اپنے اقارب سے تعلقات کیسے نبھاؤں؟جب شوہر کو بیوی کے دلی جذبات کا احساس نہیں تو رشتہ مؤدت و رحمت کی تسکین کیونکر ہو گی!!!
عورتوں کے لیے معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔،(القرآن)
اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:”مسلمان اپنے گھروالوں پر خرچ کرتا ہے اوراس میں اجر کی نیت رکھتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ إذا أنفق المسلم نفقۃ علی أہلہ وہو یحتسبہا کانت لہ صدقۃ (بخاری،مسلم)
لہٰذا شوہر کا اپنے اقارب پر وہ خرچ جو بیوی کی حق تلفی کر کے کیا جائے، اس کی ضروریات، لباس وغیرہ کی فراہمی میں تساہل کر کے کیا جائے کسی طور مستحسن نہیں کہلا سکتا۔ بیوی اپنے سسرال میں تعلق نبھانے کے نام پر قربانیاں دیتی رہے تو وہ اس کا فرض ہے اور شوہر ناپ تول کر بیوی پر خرچ کرے، اس کے اقارب پر خرچ کرنے کو اسراف سمجھے تو یہ کیسے ‘عاشروھن بالمعروف’ کا درست فہم ہو سکتا ہے؟ اللہ ہمیں رویوں کے تضاد سے محفوظ رکھے۔آمین