ہو سکتا ہے کہ ہر تبصرہ زیادہ بڑے نقصان کا پیش خیمہ نہ ہو مگر اکثر تبصرے اور تنقید زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ عموما تبصرے اور تنقید کرنے والے بے تکان بولنے کے عادی ہوتے ہیں اور بناء سوچے سمجھے باتیں چھانٹتے رہتے ہیں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ یہ اگلے پر کتنا گراں گزر رہا ہے اور لوگوں کو خوش رکھنے کی خاطر اگلا کس دل سے اپنی پسند کے کھانوں، کپڑوں حتیٰ کہ بعض ایسی عادات سے کنارہ کش ہو جاتا ہے کو فی الاصل نیکی کے زمرے میں آتی تھیں۔کیا ہم زبان کے غیر محتاط استعمال پر قابو نہیں پا سکتے؟
مثلا ہم بناء سوچے تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ دو روٹیاں کھاتی ہے، یہ ہمیشہ یہی تین سوٹ ادل بدل کر پہنتی ہے، فلاں اپنے معاملات چھپا چھپا کر کرتا ہے، فلاں کی گردن تو گویا ہے ہی نہیں۔۔۔یا ‘آپ نے اتنی سردی میں یہ کپڑے پہنے ہیں’ ‘اتنی ٹھنڈ میں جرابیں اور بند جوتے ہی سوٹ کرتے ہیں’.ارے آپ نے تو اگلے کا کباڑہ کر دیا نا!آپ زبان کی بے مقصد کھجلی پر ذرا سا قابو پا سکتے تھے مگر آپ نے نہیں پایا۔ اب دو روٹیاں کھانے والی اپنی خوراک گھٹا دے گی اور جسم کو مسلسل طلب سے کم خوراک ملنے پر کمزوری اور سستی وکاہلی وچڑچڑے پن کا تحفہ محض آپ کی زبان کے غلط استعمال سے مل جائے گا اور پھر آپ اپنے کیے سے بے خبر مزید گل افشانی یوں فرمائیں گے کہ ‘عجب بد دماغ سی لڑکی ہے’۔گویا آپ تو جینے کا حق چھیننے ہر تلے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو تین سوٹ ہی ادل بدل کر پہنتا ہے وہ سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تو نہیں؟ہو سکتا ہے کہ آپ اس کی ‘خودداری’ کے سبب اس کی مالی پوزیشن کا غلط اندازہ لگائے بیٹھے ہوں۔ہو سکتا ہے اگلا سادگی پسند ہو اور ضرورت سے زائد مال سے ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہو۔ ہو سکتا ہے وہ کپڑوں کی نمائش نہ کر کے کم حیثیت رشتے دار کو دکھ نہ پہنچانا چاہتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہر نئے ٹرینڈ کا لباس خریدنے کی بجائے کسی ضرورت مند کو لباس کا تحفہ دیتا ہو۔ بہرحال جو کچھ بھی معاملہ ہو، آپ نے تو بہرحال اذیت دے دی نا! اس بات سے بے خبر کہ یہ بات سردی میں کھلے چپل پہننے والا اور ہلکے پھلکے کپڑے پہننے پہننے والا خوددار مگر محتاج ہے۔ کیا معاملات میں رازداری برتنے والا نظر بد سے بچنے اور خوش اسلوبی سے معاملہ طے کرنے کے لئے یہ حکمت نہیں اپنا سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
” بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جسکے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔” (متفق علیہ) ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” اور تم اپنے منہ سے وہ بات نکالتے ہو جسکے بارے میں تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور تم اسے ہلکا سمجھتے ہو حالانکہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔” (النور)
ایک حدیث میں آتا ہے:
جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات خیر و بھلائی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔” (متفق علیہ)۔
قرآن میں آتا ہے:
ہرگز نہیں، یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے اور اس کیلئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے۔” (مریم 79)
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
بے شک کبھی آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ بولتا ہے کہ اس کو گمان تک نہیں ہوتا کہ وہ کلمہ اسے کہاں تک پہنچا دیگا۔ اللہ تعالیٰ اسکے سبب اس بندہ کے حق میں قیامت تک کیلئے اپنی رضا مندی و خوشنودی لکھ دیتا ہے اور بے شک کبھی آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ اس کو گمان تک نہیں ہوتا کہ وہ کلمہ اس کو کہاں تک پہنچا دے گا؟ اللہ تعالیٰ اسکے سبب اس آدمی کے حق میں قیامت تک کیلئے اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔” (ترمذی، ابن ماجہ)
اللہ ہمیں اپنی ناراضی سے بچائے اور زبان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین