کچھ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو مضمون کے موضوع کو دیکھ کر سوچیں مجھے یہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے سے ہی عقلمند ہوں۔ ہر شخص کو اپنی عقل سب سے بڑی لگتی ہے لیکن قارئین بصارت جاتی ہے جائے بصیرت نہ جائے۔ واقعہ یوں ہےکہ بحیثیت اسلامیات استاد کے اکثر طلبہ و طالبات اور ان کے والدین اپنے بچوں کی عقل و ذہن کی تیزی کے لئے وظیفے کے طلب گار ہوئے۔ ذہانت بڑھانے کے لئے وظیفہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ لیکن عقل و ذہانت ایسا نادر پودا ہے جو محنت کے بغیر نہیں لگتا۔ عقل دراصل اپنے ماحول سے متاثر ہوتی ہے اسی نظریے سے چیزوں کا جائزہ لیتی ہے جب کہ شرع کا حکم اس عقل کے موافق ہوتا ہے۔ جو اصل فطرت پر ہو سلیم اور خالص عقل خارجی اثر سے پاک ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ بے عقلوں کا معاشرہ تھا جس میں ایک اللہ کے علاوہ کئی معبودوں کو اپنایا ہوا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل بچپن سے ہی اصل فطرت پر تھی نبوت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلیم خالص عقل ایک اللہ کی عبادت غار حرا میں کرواتی رہی یہی وجہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا وسیع اور بامقصد نظر آئی جب کہ احمق کفار کو دنیا مختصر اور بے مقصد لگتی تھی وہ بغیر کسی مقصد کے زندگی گزارتے اور جانوروں کی طرح کھا پی سو کر صبح و شام کرتے۔ آدمی کا وزن دوسرے کی نگاہ میں اس کے جسم یا کسی اور چیز سے نہیں ہوگا آدمی کی اصل ماہیت عقل و شعور ادراک ہے ورنہ رہا جسم تو وہ گدھے کے پاس بھی ہے۔ ہمیں اپنے آئی کیو لیول کا اندازہ ہو کہ ہم کتنے ذہین ہیں۔
ہم اپنی عقل کس پیمانے سے ماپ سکتے ہیں؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گمراہ کن مواد کا راج ہے ذہین لوگوں کی عادات ونشانیاں مضحکہ خیز عجیب و غریب ذکر کی جاتی ہیں۔ جیسےناخن چبانا دیر تک جاگنا دیر سے بستر چھوڑنا صفائی پسند نہ ہونا سست ہونا ہاتھ پاؤں کی انگلی چھوٹی بڑی ہونا دوست نہ بنانا وغیرہ رہنمائی کے لیے یہاں بتاتی چلوں کہ مابدولت کو گھر خاندان میں موٹی عقل کا کہا جاتا تھا اردگرد چونکہ بہت سے عقل مند تھے اس لیے اپنی اس کمی کے سبب میں نے مطالعے میں سب سے زیادہ اقوال زریں کی صنف کو اپنایا بزرگوں اور صاحب علم کی مجلس اختیار کی دانائی و فراست کی لگن تھی کہ اللہ نے قرآن سے وابستہ کردیا۔
قارئین اپنی عقل کو اس پیمانے پر جانچ لیں کہ اگر ہم میں غور و فکر کی صلاحیت ہے تو ہم عقل مند ہیں ورنہ نہیں عاقل کی سب سے بڑی نشانی یہ کہ وہ جب کوئی بات سنتا ہے تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لیتا ہے علم کے نقال بہت ہیں غور کرنے والے کم ہیں۔ یہاں اندھے سے مراد کم عقل ہے اور بینا سے مراد عقلمند بصیرت مند ہے۔ وہ بینا جو شعور کی آنکھ سے سوچتا ہے مشاہدہ کرتا ہے۔
اپنی ذہنی استعداد کو بڑھائیے۔
• آپ کا شعبہ اگرچہ کوئی بھی ہو آپ اپنے شعبہ کے علم کے ساتھ قرآن کا مطالعہ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ لازمی کریں۔
• حالات حاضرہ سے باخبر رہیں۔
• مطالعہ اور مشاہدے سے حس مزاح برجستگی کامن سینس کے استعمال کا سلیقہ سیکھ جائیں گے۔
• کسی بھی معاملے میں اکیلے اپنی عقل پر بھروسہ نہ کریں۔ ذہین شخص اپنے اردگرد کے افراد جو علم حیثیت رتبے میں بڑے ہوں ان سے مشورہ کرتا ہے کوئی کام بغیر مشورے کے نہیں کرتا چاہے اسٹڈی میں کسی مضمون کا انتخاب کرنا ہو یا کاروبار کرنا ہو اگر چہ دوست ہی بنانے ہوں مختلف معاملات میں خود سے زیادہ عاقل سے مشورہ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی عقل سے کچھ حصہ آپ کو بھی ملتا رہے گا اور اک دن کامیاب فرد بن کر فلاح پاجائیں گے۔
• اگر کوئی عاقل جان کر آپ سے مشورہ کرے رائے مانگے تو اپنی عقل پر غرور نہ کریں اس فہم کو اللہ کی عطا جانیں۔ ہمیشہ صالح مشورہ دیں کیوں کہ آپ ذہین ہیں۔ آپ اچھا مشورہ دیتے ہرگز نہ ڈریں کہ سامنے والا کامیاب ہوجائے گا اور آپ ناکام۔ آپ کا یہ چاہنا کہ صرف آپ اکیلے کامیاب رہیں یا اپنی عقل میں کسی کو حصے دار نہ بنانا علم چھپانا صالح مشورہ دینے میں بخل کرنا یہ غرور اور خود پسندی کی علامت ہے۔
• احمق کا ساتھ اور اس کی دوستی کبھی نہیں اپنائیں اس طرح کے لوگوں سے مشورہ نہ کریں جو آپ کو اللہ کی رحمت سے مایوس کریں اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و رحمت سے نا امید کریں آپ کے مشن میں رکاوٹ بنیں۔
• عقل میں اضافت کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے نافع افراد سے دوستی کریں۔
خلاصہ کلام: قارئین اگر آپ کے اندر اوپر درج خواص موجود ہیں تو آپ ذہین ہیں اگر نہیں تو ان خوبیوں کو پیدا کر کے ذہین بنیں۔