اسکی معصوم شکل مگر پر عزم آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی مگر نہ ہی میں پہلے کی طرح اس کو جواب دے سکتی تھی نہ مسکرا کر گلے لگا سکتی تھی وہ مجھ سے بہت دور ہو گیا تھا۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔
زندگی ہر ایک کے لئے الگ احساس ہے کسی نے اب تک موسم بہار ہی دیکھا تو کسی نے پت جھڑ کے پتے اٹھائے، اس کو گزارا۔۔ گو زندگی ہر ایک کے لئے یکسا ںنہیں ہے۔ میں نے زندگی کا ز ہی سیکھا تھا کہ ابا اپنی زندگی کو خیر آباد کہہ گئے۔ خوش قسمتی سے میرے تینوں ماموں بہت رحم دل تھے میری امی نے جوانی میں بیوگی کا سامنا کیا تو انہوں نے ہمیں بے سہارا نہ چھوڑا۔۔ ہم زمانے کی نظر میں بہت خوش حال نہ تھے مگر عزت سے زندگی بسر کر رہے تھے میں ساتویں جماعت کی طالبعلم تھی کہ ابو ہارٹ اٹیک کے باعث دنیا سے رخصت ہوئے۔۔۔ مجھ سے چھوٹی عزین چوتھی میں تھی اور اعظم دوسری میں۔۔۔۔
ہم میں سے کوئی بھی اس قابل نہ تھا جو امی کے درد کو سمجھتا۔۔ چونکہ میں بڑی تھی اس لیے وقت و حالات کی کشمکش کو کچھ سمجھ گئی تھی ابو کی بہت اچھی تنخواہ نہ تھی اس لیے ہم محلے کے اسکول میں ہی پڑھتے تھے انتقال کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔۔۔
ہمارے تینوں ماموں میں درمیانے نمبر پر حیدر ماموں کا تعلق فوج سے تھا۔۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتے چائے پیتے اور چلے جاتے۔۔۔ وہ اعظم کے سوپر ماموں تھے گھر میں داخل ہوتے تو اعظم ہنس کے کہتا حیدری ماموں آئے ہیں حیدری ماموں۔۔۔۔ اور سب اس مزاق پر اس طرح ہنستے۔۔۔ کہ پہلی بار کہا گیا ہو۔۔۔
یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں کبھی ماموں کا مزاق ۔۔۔ کبھی ماموں کا ہمارے لئے چیزیں لانا گھر میں داخل ہوتے تو کہتے گرم گرم جلیبیاں لایا ہوں پلیٹ لے کر آؤ کبھی شکر قندی تو کبھی بھٹا اور کچھ ہر بار کچھ نیا۔۔ ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا اعظم کے ذہن کے وسیع حصے پر حیدر ماموں کا ہی راج تھا۔۔ ایک دن یوں ہی بیٹھے کہنے لگے” اور میاں کیا بنیں گے بڑے ہو کر ؟” اعظم نے جھٹ جواب دیا “فوجی بالکل آپ جیسا…” ماموں نے کہا “فوجی ….اچھا کیوں؟”۔۔۔
“کیونکہ فوجی ملک کی خدمت کرتے ہیں اور آپ کی طرح سب کے کام آتے ہیں۔۔” اچھا تو اگر آپ کا اسکول فوجیوں والا بنادوں…؟ ” اعظم کی شکل دیدنی تھی لگتا تھا خوشی اس کے انگ انگ سے چھلک رہی ہے اس بات کے بعد حیدر ماموں نے ہمارے اسکول بدلنے کی بات امی سے کی۔
میں کمرے کے باہر صحن میں سب سن رہی تھی جبکہ کہ عزین محو تھی اور اعظم جنہوں نے شوشہ چھوڑا تھا ایک ننھی گن سے کونوں میں چھپ کر فائر فائر کی ایکٹنگ کر رہے تھے ماموں نے کہا “اسما باجی آخر اس میں حرج کیا ہے؟ اس کا مستقبل بہتر ہوگا آپ کے لئے فخر کا سبب بنے گا ۔”امی نے کہا “حیدر میں پہلے ہی تمہارے احسان تلے ہوں صدیق کی تو اتنی پینشن نہیں ہے مجھے اور شرمندہ نہ کرو آج تمہاری فیملی نہیں ہے مگر کل کو ہوگی کب تک بوجھ اٹھاؤ گے۔۔۔! باجی یہ آپ نے غیروں والی بات کی ہے ۔ میں اکیلا نہیں کر رہا ۔۔۔ سب! اور آپ بوجھ کیوں سمجھتی ہیں یہ احسان نہیں ہے یہ میرے بچے نہیں ہیں؟ مگر حیدر؟ مگر کی بات نہیں ۔۔۔۔ اگر صرف یہی منع کرنے کی وجہ ہے تو اس سال کے ختم ہوتے ہی میں داخلہ کروا دوں گا ۔۔۔ پلیز نا نہیں کہیے گا۔۔”
دن یوں ہی گزرتے گئے ۔۔۔ کب ختم ہوا پتا نہ لگا میرا تو میٹرک ختم ہونے کو تھا۔۔۔۔ اس لیے صرف عزین اور اعظم کا داخلہ اے پی ایس “آرمی پبلک اسکول” میں ہوا۔۔۔
پہلی بار اعظم کو جب فوجی کا لباس پہن کر ٹیبلو میں حصہ دیا گیا تو اس نے گھر آتے ہی نغمے گنگنانا شروع کر دئیے۔۔۔ دوپہر کو ہوم ورک کرتے ہوئے ایک دم سے سر نکال کر کے جوشیلے انداز میں بولا “مجھے اس وردی پر فخر ہے۔ ہم ماؤں کے بیٹے اس وطن پر دشمن کو آنکھ اٹھانے نہ دیں گے۔۔” میں نے کہا ” اب کیا ہوا؟” کہنے لگا ” میرا دوست ہے سمیر۔۔۔ اس کو تقریر میں حصہ ملا ہے مجھے بھی چاہئے تھا اس کی پوری تقریر یاد ہے مگر ٹیچر نے کہا ہے کہ صرف ایک چیز میں پارٹیسیپیٹ(participate) کر سکتے ہیں اور میں ٹیبلو میں لے چکا ہوں۔۔۔ عزین نے کہا۔۔” آپی یہ نہ خود پڑھتا ہے نہ پڑھنے دیتا ہے۔۔”میں نے کہا” کوئی بات نہیں اگلی بار لے لینا” “نہیں نا آپی میں آپ کو ایک بار سناؤں پھر خود ہی کھڑے ہوکر تقریر شروع کر دی مجھے اس کی اس حرکت پر بے ساختہ پیارا آگیا۔۔۔ میں نے چمٹ کر کہا” تم بڑے ہو کر سچ میں ایسے کہنا ۔۔” کہنے لگا… ہاں ٹھیک ہے میں نے اس کو چوما اور ڈانٹا اب کر لو ہوم ورک ورنہ؟ عزین میرے غصے پر اعظم کو چڑانے لگی۔
وہ سولہ دسمبر کا دن تھا امی میرے سامنے نے بے ہوش پڑی تھیں میری زبان سل چکی تھی۔ اور کان۔۔ کان میں تو آوازوں کا وہ شور تھا کہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
دل نے شاید دھڑکنا بند کر دیا تھا۔۔۔ خون میں لپٹی اعظم اور عزین کی لاش میرے سامنے موجود تھی مگر میری آنکھ میں آنسو کیا نمی بھی موجود نہ تھی نہ جانے کیوں پتھر کی لگ رہی تھیں عزین ایک ہونہارطالبعلم تھی کئی خواب تھے جو اس نے صرف مجھ سے شیئر کئے تھے اور اعظم نے تو اپنے خوابوں کو اعلانیہ سنایا تھا مگر اب سب گم ہو گیا تھا ہاتھ کی مٹھی میں دبی کسی ریت کی مانند ۔۔۔!