آپ خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر آپ دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔ بچے آپ کی اک نظر التفات کو ترستے ہیں مگر آپ سردمہری کا خول توڑنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ آپ تحائف دینے میں ضیق صدر کا شکار اور کشمکش میں مبتلاء ہو جاتے ہیں مگر تحائف کی وصولی اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں۔ آپ خود اپنے اقارب سے حسن سلوک کی اعلی مثال قائم کرنے سے گھبراتے ہیں مگر دوسرے آپ کے ساتھ حسن سلوک کریں تو آپ پھولے نہیں سماتے۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ آپ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے دوسروں کو نظر انداز کرتے ہیں، حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹانگ کھینچنے کا عمل کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اپنی خوشی میں چاہتے ہیں کہ سب پرجوش طریقے سے خوشی منائیں مگر دوسروں کی خوشی میں رنگ میں بھنگ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آپ بھوکے کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں مگر کھانے کی کمی کا خیال آپ کو ایسا کرنے نہیں دیتا۔ آپ ہمیشہ اچھی شے اپنے لئے پسند کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے کے دلی جذبات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ دوسروں کی تذلیل کرتے وقت ‘شماتت'(دوسرے کی مصیبت میں خوشی) محسوس کرتے ہیں مگر آپ کے ساتھ غلط رویہ برتا جائے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے متمنی ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کے عیوب ٹٹول ٹٹول کر نمایاں کرتے ہی۔ ہم عار دلا کر کم ظرفی کی انتہا کر دیتے ہیں مگر اپنی کمزوری کی اصلاح کے لئےخیر خواہانہ رویے سے خوش ہوتے ہیں۔ دوسرے آپ کے جذبات کا خیال رکھیں مگر آپ جذباتی قتل بے دردی سے کرتے رہیں! کیا یہ کم ظرفی کی انتہا نہیں!
کیا اچھا بننے کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں کو تکلیف وایذا دی جائے؟ کیا اچھائی کے اعلیٰ منصب پر سرفراز ہونا آپ کو پسند نہیں؟ دوسروں سے حسن سلوک کر کے، معاملات میں نرمی برت کر آپ نیکی کی ترویج میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔کیا اعلیٰ ظرفی آپ کی شخصیت کا وقار بڑھا نہ دے گی؟ کیا آپ کو پسند نہیں کہ تحائف دے کر باہمی محبتوں کو فروغ دیں؟ کیا آپ ابو طلحہ انصاری کے ایثار سے متاثر نہیں؟ کی ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے کافی نہیں ہو جاتا؟
ہم بھائی کے لئے وہی پسند کیوں نہیں کرتے جو اپنے لئے کرتے ہیں؟ ہم تکلیف دہ رویوں کو فروغ دینے میں کردار ادا کرتے ہیں اور پھر عدم برداشت، کے عام ہونے کی شکایت کرتے ہیں ہم اپنی چاہ کے مطابق سب کو چلانا چاہتے ہیں اور دوسرے کی چاہ کو پرکاہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے مگر جب کوئی دوسرا آپ کی چاہ پوچھتا ہے تو آپ باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کیا ہم اپنے انا کے بت کی پوجا چھوڑ نہیں سکتے؟ کیا ہم حق پر ہونے کے باوجود بڑے کے لحاظ میں جھگڑے سے کنارہ کشی نہیں تیار کر سکتے؟
آئیے! اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیں، دوسروں کو معاف کر کے، دوسروں کی بد تہذیبی و جہل کا مقابلہ ‘حلم وبرباری’ سے کر کے سنت کو زندہ کریں اور اعلی ظرفی کی مثال قائم کریں۔ آئیے! اپنی اولاد اور اقارب کے حقوق ادا کرنے میں احسان سے کام لیں۔ دوسروں کا بھلا کر کے طمانیت محسوس کرنا سیکھئے۔ دوسروں کی غلطیوں سے در گزر ہی اعلی ظرفی نہیں بلکہ ہر اس معاملے میں جھک جانا بھی اعلی ظرفی ہے جو ‘انا’ کی بھینٹ چڑھنے والا ہو۔ اللہ ہمیں ہر معاملے میں اعلیٰ ظرفی سے کام لینا والا بنائے اور کم ظرفی سے ہمیں بچا لے۔آمین