فیصلہ

کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باہر سے تو بھر جاتے ہیں مگر حقیقتاً اندر ہی اندرناسور بن جاتے ہیں۔ سولہ دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اس دن وہ زخم ملا جو آج تک نہ بھر سکا بلکہ جب جب سورج اس تاریخ کے ساتھ طلوع ہوا یہ زخم نئے سرے سے ہرا ہوگیا کہ اس تاریخ کو پاکستان اپنے وجود کے ایک حصے سے محروم ہو گیا۔

دھرتی ماں جو پانچ بیٹوں پہ ناز کیا کرتی تھی اپنے ایک بیٹے کے چھن جانے پہ نوحہ کناں تھی۔ اور آج تک سوگوار ہے۔ تو کیا اب تک ہر سولہ دسمبر کو اس کا سوگ منا کر اور تاریخ پہ تقریریں جھاڑ کر ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں؟ نہیں بلکہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے وہ کیا عوامل تھے جو یہ سانحہ ہماری ارض پاک کو سہنا پڑا، وہ عوامل، وہ کالے بادل آج پھر سے ہماری ماں کے سر پر منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

کوئی پھر سے ہمارے دلوں میں نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ انر ہی اندر ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے۔ پھر سے ہمارے تعلیمی اداروں میں ہماری نوجوان نسل کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے انھیں احساس دلایا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے تعلیمی اداروں میں پھر سے غیر مسلم اساتذہ بھرتی کیے جا رہے ہیں جو جوان ذہنوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ پھر سے حکومتیں کرسی بچاؤ مہم میں مصروف دکھائی دیتی ہیں انھیں سندھ، بلاچستان کے مسائل دکھائی نہیں دے رہے بس ان کے مسائل ان کے پیٹ کی آگ کو ہی بھرنا ہے وہ کل بھی اقتدار کی بھوکی تھیں اور آج بھی انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا مگر ہم عوام؟ کیا ہم بھی نہ سیکھیں گے؟ کیا ہم پھر سے آپس میں نفرتوں کو پروان چڑھائیں گے تاکہ دشمن پھر سے ہمیں لوٹ لے جائے؟ نہیں ہر گز نہیں ہمیں چوکنا ہونا ہو گا اپنی نسلوں کی، اپنے وطن کی حفاظت کرنی ہو گی اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو پہچاننا ہو گا جو ہمارے درمیان نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ مخلص قیادت کو اپنانا ہو گا جو صوبوں کو آپس میں محبت کے بندھن میں جوڑ سکے۔ جو عدل کا نظام قائم کر سکے۔ ماضی کا رونا رونے کی بجائے اس سے سبق سیکھنا ہو گا کیونکہ مومن کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوتا ہے۔ اب فیصلہ ہم پہ ہے۔