ہم جی رہے ہیں ۔کھاپی رہے ہیں ،طرح طرح کی تفریح میں بھی مصروف ہیں ۔یہ دنیا کتنی بھلی لگتی ہے کہ اس میں اچھی گاڑی اچھےگھر ،کروڑوں روپے کی ریل پیل کی خواہشات ہمارے دل میں امڈ آتی ہیں۔ لوگوں کو اسٹینڈر بھی تو دکھاناہے۔ سوسائٹی میں ناک بھی تو رکھنی ہے۔ ہم تو بس سب سے جدا نظر آئیں۔ اتنی دولت ہو کہ بس جو چاہیں ہمیں مل جائے۔ یہ سب وہ ارمان ہیں جو دنیا میں بسنے والے انسانوں کے دلوں میں بستے ہیں اور وہ پھر ان کی تلاش میں انسان گم ہوجاتاہے اور پھر اتنے میں موت کی آغوش میں چلاجاتاہےاور نامہ اعمال خالی ہوتاہے۔ آئیے! ذرا اس دنیا کی حقیقت تو جانتے ہیں۔ یہ دنیا ہے کیا۔آپ کے چند لمحے آپکی زندگی بدل سکتے ہیں ۔ذرا توجہ سے پڑھیے گا۔
قارئین:سب سے پہلے پیارے اللہ پاک کا پیغام پڑھتے ہیں۔
۱ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَاِنَّالدَّارَالْاٰخِرَةَلَهِیَالْحَیَوَانُۘ-لَوْكَانُوْایَعْلَمُوْنَ (۶۴) (پ۲۱، العنکبوت: ۶۴)… اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور بے شک آخرت کا گھر ضرو ر وہی سچی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے ۔
۲ ارشاد باری تعالیٰ:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌۚ-وَالْاٰخِرَةُخَیْرٌلِّمَنِاتَّقٰى- (پ۵، النسآء: ۷۷) ترجمہ:تم فرمادو! کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے۔اور ڈر والوں کیلئے آخرت اچھی۔
۳ ارشاد باری تعالیٰ:
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (۲۰) (پ۲۷، الحدید: ۲۰) اور دنیاکا جیناتو نہیں مگر دھوکے کا مال ۔
قارئین ! اب ذرا پیارے آقا مدینے والے مصطفی میری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کے چین سرور کونین ﷺ کے فرامین سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
احادیث مبارکہ :
(۱) … حضرت سیدنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبی ٔاکرم، نور مجسَّم، شاہ بنی آدم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ِعظمت نشان ہے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! زندگی توصرف آخرت کی ہے پس تُومہاجرین اور انصارکو نیک بنادے۔ ‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں ’’ تُومہاجرین وانصار کی بخشش فرمادے۔ ‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الصحۃوالفراغ ۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۱۳۔۶۴۱۲، ص۵۳۹)
(۲) …حضرت سیدنا عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاکصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے میرے کندھے پکڑکر ارشاد فرمایا: دنیا میں ایک اجنبی اور مسافربن کر رہو۔ حضرت سیدنا ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : جب توشام کرے توآنے والی صبح کا انتظار مت کر، اورجب صبح کرے توشام کا منتظر نہ رہ ، اورحالت صحت میں بیماری کے لئے اورزندگی میں موت کے لئے تیاری کرلے۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَفی الدنیا۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۶۴۱۶، ص۵۳۹)
(۳) … حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبی ٔمُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس شخص کا عذرقبول نہیں فرمائے گاجس کی موت کومؤخرکردیاحتی کہ اُسے ساٹھ سال تک پہنچا دیا ۔ (مطلب یہ کہ وہ اس عمر میں بھی گناہوں سے باز نہ آیا)
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۶۴۱۹، ص۵۳۹)
امید ہے کہ اس بے مروت و دھوکوں فریب سے بھری دنیا کی حقیقت آپ کو سمجھ آگئی ہوگی۔ ایک اور روایت ذراپڑھئے اور مزید سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
حضرت محمد بن کعب قرظی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اسے تین خصلتوں کے ساتھ نوازتا ہے : (1) دین کی سمجھ، (2) دنیا میں بے رغبتی اور (3) اپنے عیبوں کی پہچان۔
( أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 59۔)
قارئین:آئیے ایک حکایت بھی پڑھ لیجئے۔
اسلام کے عظیم مفکرامام غزالی ؒ ایک خوبصورت حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں چلاجارہا تھا، اُس نے دیکھا کہ میرے پیچھے ایک شیر آرہا ہے، وہ بھاگا، جب تھک گیا تودیکھا کہ آگے ایک گڑھا ہے، چاہا کہ گڑھے میں گر کر جان بچائے، لیکن اُس میں اژدہا نظر آیا۔
اب آگے اژدہے کا خوف اور پیچھے شیر کا ڈر کہ اچانک اُس کی نظر ایک درخت کی ٹہنی پر پڑی اور اُس نے اُس پر ہاتھ ڈال دیا، مگر ہاتھ ڈالنے کے بعد معلوم ہوا کہ اُس درخت کی جڑ کو دو سیاہ و سفید چوہے کاٹ رہے ہیں، بہت خائف ہوا کہ اب تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹ گئی تو میں گر جاؤں گا اور شیر اور اژدہے کا شکار بن جاؤں گا۔
اتفاق سے اُسے درخت کے اوپر ایک شہد کا چھتا نظر آگیا۔ وہ اُس میٹھے شہد کو حاصل کرنے اور پینے میں ایسا مصروف ہوگیا کہ نہ اُسے شیر کاخوف رہا اورنہ اژدہے کی فکر، یکایک درخت کی جڑ کٹ گئی اور وہ گر پڑا،شیر نے پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اوروہ گڑھے میں اژدھے کے منہ میں جا پھنسا۔
امید ہے کہ بات سمجھ گئے ہوں گے۔ اب فیصلہ خود کیجئے گا۔ہماری کوشش سے آپکو فائدہ ہوتو آپ ہماری مغفرت کی دعا کردیجئے گا۔