یہ غالباً 90 کی بات ہے جب کراچی ایک تنظیم کے ہاتھوں پوری طرح یرغمال بنا ہوا تھا یہاں آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی آئے روز جوان لاشے اٹھتے تھے۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں ہم ایک جنازے سے واپس آرہے ہوتے تھے کہ دوسرے کی اطلاع آجاتی ہم یہی سمجھتے شاید ہمارا کام ہی جنازوں کو کاندھا دینا ہے۔
سیاستدان ہوں یا بڑے سے بڑاصحافی، ذرائع ابلاغ کا کوئی رہنما ہو یا کوئی ڈاکٹر، پروفیسر، سائنسدان، مقرر، مفکر، مصنف، حکیم، سب کراچی پر بات کرنے سے خوفزدہ تھے۔ اس زمانے میں ڈی جی رینجرز سندھ عبدالقادر بلوچ تھے، انہوں نے حال ہی میں ایک نجی چینل میں بات چیت کے دوران انکشاف کیا کہ 90ء میں جب میں بھی عزیزآباد 90 جاتا تھا تو میری بهی تلاشی لی جاتی تھی۔ کراچی میں ان کے جبرواستبداد کے خلاف کہنے سے ہر کوئی خوفزدہ تھا۔
شعبہ ابلاغ عامہ کے گولڈمیڈیلسٹ، مصنف، تجزیہ نگار و کالمسٹ شاہنواز فاروقی کا کہنا ہے 90ء میں لاہور میں جسارت کے ذیر اہتمام ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا ہم اس وقت طالبعلم تھے، سیمینار میں روزنامہ جنگ کےمدیر ارشاد احمد حقانی بھی شریک تھے صحافی نے ان سے سوال کیا آپ کراچی کے حالات کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے انہوں نے جواب دیا “مجھے مرنا تھوڑی ہے” تنظیم کا مقصد ہی محب وطن، مضبوط، اسلامی اذہان رکھنے والے لوگوں کا جدید اسرائیلی اور بھارتی ساختہ اسلحہ سے مقابلہ کرنا تھا کوئی انکے خلاف بات کرنے کی جرات نا کرسکتا تھا لیکن اللہ نے کسی کو تو ان کے خلاف کھڑا کرنا تھا نا۔۔۔
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گاآستیں کا
اور پھروہی لوگ کھڑے ہوئے جنکےبڑوں نے بھی 71ء میں اس وطن عزیز کےلئے، اس کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کے لئے جدید ہتھیاروں سے مسلح مکتی باہنی کے ہاتھوں کربناک اذیتیں سہتے ہوئے جام شہادت حاصل کیاتھا۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو لوٹےتھے مقتل سے سرخرو ہوکر
وہ نہیں جانتے تهے کہ شیخ مجیب الرحمان، جنرل یحییٰ خان اور بھٹو کا کیا ایجینڈاہے وہ تو صرف اپنے ملک کی نظریاتی تشخص کو مقدس و مقدم جانتے تھے اور کسی لالچ کے بغیر دس بیس نہیں پورے 100000 ہزار کی تعداد میں قربانیاں دیتے چلے گئے اور آج بهی شیخ مجیب کی باقیات کے ہاتھوں وہ بوڑھے اور ناتواں جسم تختہ دار کو چوم رہے ہیں۔
قاضی حسین احمد (رح) نے ایک بار یوم سقوط ڈھاکہ پر اپنے خطاب کے دوران فوج کو مخاطب کرکے کہا تھا ہم آپ سے اپنے ملک سے جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں آپ کا کیا ایجیڈا تھا آپ ہمیں 10 ،12 دن پہلے بتادیتے تو ہم اپنے سپوت اس طرح تو ضائع نہ کرتے۔
کہ انہیں اب نا ہی پاک آرمی اون کرتی ہے نا وہاں کے بنگلہ دیشی حکمران،
وہ جو پرنور راہوں میں مارے گئے
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی وہ نا مرے
آصف محمود دنیا اخبار کے کالمسٹ اپنے کالم میں صدیق سالک کی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں جمعیت کے نہتے لڑکے دن رات سرحدوں پر انڈین آرمی اور مکتی باہنی کے خلاف کھڑے ہوتے اور سیکڑوں کی تعداد میں شہید کردیئے جاتے وہ چند لڑکے اپنی قریبی علاقے میں موجود پاکستانی فوج کے کورکمانڈر کے پاس آئے اور کہا ہمیں کچھ اسلحہ دے دیجئے تاکہ ہم ان بھارتیوں کا مقابلہ کرسکیں کورکمانڈر نے اسلحے کی موجودگی کے باوجود اوپر کے احکام کی تابعداری کرتے ہوئے ان لڑکوں سے کہا کہ اسلحہ تو میرے پاس نہیں تم لوگ یہ دعاؤں کےکتابچے لے جاؤ یہ کہتے ہوئے ان سیکڑوں لڑکوں میں دعاوں کی کتب تقسیم کردیں وہ معصوم یہ کتابچے لے گئے اور راتوں رات ہی وہ دعائیں پڑھتے ہوئے مکتی باہنی کے ہاتھوں اذیت کی موت مارے گئے۔
یقیناً وہ پاک خون تھا اور اللہ کے ہاں اپنا حساب ضرور لے گا جنہوں نے وطن کی نظریاتی جغرافیائی اساس کی خاطر جانوں کی بھی پروانہ کی، وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر اس پھول کو رونق بخشی ہے، دوچار سے دنیاواقف ہے مگر ناجانے کتنےگم نام ہیں۔
وه آخرت کے راہی تھے جو آخرت میں سرخروی کے لیئے دنیا کوخیرآباد کہہ گئے جو90 ہزار کی تعداد میں سیزفائر کرنے والی فوج کو اپنی جان و مال کی اذیتیں سہتے ہوئے یہ پیغام دے گئے تهے کہ۔۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگاؤ ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اسکے بعد تاریخ پھر اپنے آپ کو دہراتی ہے اور وہی دین کا پرچم سربلند کرنے کے لیئے کھڑے ہوتے ہیں جو رب کی نظر میں فتح یاب ہیں جو دنیا کی نظر میں تو زخم خوردہ ٹہرےہونگے، لیکن رب کی نظروں میں کامیاب و کامران ہوئے۔ وہی لوگ 90ء میں دوبارہ جابر قوتوں کے خلاف پرچم حق بلند کرنے کے مجرم ٹہرے، جب کوئی اخبار کراچی کے حالات بیان کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتا تها یہی جماعت اسلامی اور جمعیت اور انکا ترجمان جسارت اخبار ہی نے جرآت کا اظہار کیا اور وہ داستانیں رقم کیں جو اگر کسی دوسری اقوام نے کی ہوتی تو وہ اقوام آج تک اس قربانی کو یاد رکھتئ ہماری قوم کا تو المیہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو جلد بھول جایا کرتے ہیں۔ قربانی کے فلسفے کو زندہ رکھا حضرت ابراہیم کے نظریئے کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے مدمقابل کی قوت کو پس پشت ڈالتے ہوئے کلمہ حق کی صدا بلند کی۔
عبادشہید، سعد بن صلاح شہید، غیور ناظم شہید، جاوید ناظم شہید، احسان شہید، نواز شہید، لبیب شہید، عبدالبصیر شہید اور ناجانے کتنے شہید ہوگئے، مجھے اچھی طرح یاد ہےمیرے چچا کی شہادت بھی انہی دنوں ہوئی تھی، ہم سب بچے تھے لیکن انکی شہادت نے ایک طوفان ہمارے ذہنوں میں برپا کردیا۔ جب ان کی میت گھر پہنچی تو دادی قریب آئیں اور میرا بیٹا کہتے ہوئے انکے چہرے سے گلاب کی پتیاں ہٹانے لگیں انکے چہرے پر ایک آنسو نا تها میں نے اپنے عزیز از جان چچا کودیکھا اور ناجانے کیسے ایک آنسو پھسل کر میرے گال تک آگیا۔ قوی بھائی مجھ سے بڑے تهے قریب آئے اور بولے تم رورہی ہو شہیدوں پر روتے نہیں میں نے جلدی سے گال کو مسل ڈالا اور زور سے بولی جی نہیں آنکھوں میں کچھ چلا گیاہوگا۔