ہم زندگی میں منہ سے لفظ نکالتے ہیں امید ہے کسی نے منہ سے تیزاب ،پیٹرول ،زہر نکلتے نہیں دیکھاہوگا۔ لیکن میں آپ کو بتاتاہوں ہم اپنی زبان سے زہر میں بجھے تیر،تیز سے تیز ایسڈ پھینک رہے ہوتے ہیں۔ ہم منہ سے آگ بھی اگلتے ہیں ۔جس سے کسی کاکلیجہ جل کا راکھ ہوجاتاہے ۔
جی ہاں : ابے تیری اوقات ہے۔ پہلے ہمارے برابر ہوتوپھر آنا۔ ارے یہ کل کا چھوکرا۔ ہمارے پیسوں پر پلنے والے آج سراُٹھارہے ہیں۔ اس کی بیٹی غربت میں رہی یہ کسی اچھے گھر کی کیسے ہوگی۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ کیفیت ہے۔ جب ہماری زبان آگ، تیزاب کی بارش کررہی ہوتی ہے۔ جس کی زد میں فرد، گھر اورگھرانے آجاتے ہیں۔ یہ طنز ہے طنز۔ جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھاگیاہے۔ نہ جانے اس طنز نے کتنی قیمتی جانوں کو خودکشی ،کتنی جانوں کو تختہ دار، کتنی خاندانوں کی برسوں کے مراسم کو برباد کرکے رکھ دیا۔
میرے پیاروآپ اگر بات کرنا چاہتے ہیں تو اس کا سلیقہ تو سیکھیں۔ یہ لہجہ آپ کی کم عقل اور متکبر ہونے کی چغلی کھاتاہے۔ ایک اور چیز جو مشاہدے میں آتی ہے۔ جب کوئی دوست یار غربت کے دنوں میں ساتھ رہتاہے۔ وقت اپنائیت میں کٹتاہے۔ لیکن جب اس کے پاس کار بنگلہ، شہرت، مقام آجاتاہے وہ پرانے دوستوں کو اپنے کہنے اور سمجھنے میں حقیر سمجھنے لگتاہے۔ بعض مرتبہ اپنی نفسیاتی برتی کی وجہ سے طنز میں بجھے تیر بھی اپنی ہی پیاروں پر برسادیتاہے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں۔ آپ نے جس کے ساتھ یہ کیا وہ چپ تو ہوگیا۔ اس کی وجہ آپ کا معاشی استحکام، اثر و رسوخ ،کاربنگلہ ،شہرت یا اس متعلقہ شخص کی کوئی وابستہ غرض بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں ۔آپ اس کے دل و دماغ کی تختی سے عزت و احترام کے رشتے سے مٹ چکے ہیں۔
آئیے میں آپکو اپنے پیارے اللہ پاک کافرمان بتاتاہوں ۔
🙁 وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-)
تَرجَمہ :اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔(پ26، الحجرات: 11)
طعنہ زنی کرنے والو:ذرامیرے پیارے آقاﷺ کا فرمان تو پڑھو:
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِی یعنی مؤمن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا،بے حیائی کی باتیں کرنے والا اور بدکلام نہیں ہوتا۔ (ترمذی،ج 3،ص393، حدیث: 1984)
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:یعنی یہ عیوب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص469)
میرے پیارے ہر چیز سے پیارے آقاﷺ فرماتے ہیں :
اگر کوئی شخص تمہیں تمہارے کسی عیب کا طعنہ دے تو تم اسے اس کے عیب کا طعنہ ہرگز نہ دو کیونکہ تمہیں اس کا ثواب ملے گا اور طعنہ دینے والے پر وبال ہوگا۔(ابن حبان،ج 1،ص370، حدیث:523)
ہاتھ جوڑ کے عرض ہے اللہ کے بندوں کو مت زخمی کریں مت دکھی کریں ۔آپ توہنس کر مسکراکر قہقہ لگاکر چلے گے۔ آج روزمرہ کی گفتگو میں بھی ایک دوسرے کو طعنہ ۔ٹھٹھہ مسخری میں بھی طنز۔یہ رویہ درست نہیں ۔ ۔لیکن وہ اللہ کا بندہ کس تکلیف میں ہے آپ نہیں محسوس کرسکتے ۔صرف بات کو پراثر بنانے کے لیے آپ کو بتاوں میں بھی بہتے طعنوں و طنزکاشکار ہوچکاہوں ۔بہت درد ہوتاہے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔بہت دکھی ہوجاتاہوں ۔مجھے بھی بہت کوساگیا۔آپ میرے پیارے ہی تو ہردل کی با ت آپ کو کہہ دیتاہوں ۔لیکن ہم نیت کرلیتے ہیں کہ ہم ملک کے بادشاہ کی کیوں نہ بن جائیں ہم کسی کو طعنہ نہیں دیں گے ۔