معاشرہ اس حد تک تنزل پزیر ہو چکا ہے کہ ہر دوسرا فرد اپنے سے کمزور فرد کو دبانے میں لگا ہے اور اس گھٹیا مقصد کے حصول کے لئے اخلاقیات کی آخری حدیں بھی پار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا، یہاں تک کہ معمار قوم “استاد” کی ذہنی پستی کا عالم یہ ہے کہ وہ طالب علموں کو بلا ضرورت، من چاہی سزائیں دینے میں تسکین محسوس کرتا ہے جبکہ ہمارے دین نے تو استاد کو والدین کے درجے میں رکھا ہے۔
اللہ دنیا بنا کر کہیں جا کر سو نہیں گیا(معاذاللہ)، بلکہ ایک شاہراہ حیات دی ہے جو اس کی طرف جاتی ہے،ہاں مگر امتحان کے نکتہ نظر سے بھول بھلیاں بھی بنا دیں۔ ہدایت کے طالب تو ہدایت یافتہ گھرانوں میں پیدا نہ ہونے کے باوجود بھول بھلیوں میں نہیں کھو جاتے بلکہ ہدایت کی سچی طلب انہیں صراط مستقیم کا راستہ دکھا دیتی ہے مگر اللہ کا دستور یہ ہے ہی نہیں کہ برے میلانات کو جانتے بوجھتے اپنے اندر پرورش دینے والوں کو زبردستی اخلاق حسنہ کا نمونہ بنا دے۔
دنیا میں جب کہ برائی کا تناسب خطرناک درجے تک بڑھ چکا ہے۔ہر دوسرا شخص اللہ کی زمین پر اپنی خدائی قائم کیے ہوئے ہے۔ آخرت کی فلاح کے لئے مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کی بجائے مقابلہ اس چیز میں ہے کہ “میری اجارہ داری کیسے تادیر قائم رہ سکتی ہے” ہم اللہ کی قائم کی گئی حدود سے کنارہ کر چکے ہیں تو اللہ نے بھی ہمیں اندھیروں میں بھٹکتا چھوڑ دیا ہے، ہم اپنی مرضی سے عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور پھر اللہ سے رو رو کر اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ ارے،اللہ کے سامنے اتنی دیدہ دلیری۔ پہلے اس کے بندوں کو اذیت دیتے ہو، پھر اس کے آگے ماتھا بھی ٹیک دیتے ہو۔ دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو تو اللہ کے ہو رہو،فطرت سے لڑنا چھوڑ دو، غیر فطری طریقوں سے جان چھڑا لو خواہ ان کا تعلق اخلاق وعادات سے ہو، رہن سہن یا تعلیم سے ہو،معیشت یا سیاست سے ہو۔
اللہ کے آگے جھکنے والا تو اس کی مخلوق کے لئے بہت نرم دل ہوتا ہے، وہ تو دوسروں کو اذیت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا، وہ دوسروں کی نجی زندگی میں دخل نہیں دیتا، اللہ نے نگران بنادیئے ہیں نا جو شاہراہ حیات میں، اوپر سے نیچے تک،حکومت کے نگرانی سے لے کر گھروں کے نگرانوں تک۔ ان نگرانوں سے اللہ حساب لے گا کہ تم نے یا تمھاری سربراہی میں، تمھارے ماتحتوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کی عزت کیوں پامال کی،حق کیوں مارا، ازیت کیوں دی۔ یاد رکھئے ! اللہ نے درگزر کرنے والے، بردباری کا مظاہرہ کرنے والے، حیاداری میں ہر زیادتی پر خاموش رہنے والے، فتنہ وفساد کے ڈر سے خاموش رہنے والے، حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرنے والے کو ظالم کے لئے آزمائش بنایا ہے۔ اللہ نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرنے والے کو جنت کی ضمانت یونہی نہیں دلوا دی نبی مہرباں صہ کی زبان سے۔ اللہ نے ہم میں سے ہر ایک کے اندر نفس “لوامہ” رکھا ہے، جو ہر بار غلط عمل، غلط بات یا غلط رویہ اختیار کرنے پر ہمیں ٹوکتا ہے لیکن اگر ہم نفس مطمئنہ کے حصول کے لئے خود ہی کوشش نہیں کرتے اور “نفس امارہ” کی اکساہٹ ہی ہمیں خوشنما لگتی ہے تو اللہ پر بہتان بھی نہ باندھنے کہ اللہ ہماری فریاد نہیں سنتا۔معاذاللہ
اخلاقی تنزلی کے خاتمے کے لئے ہر نگران کو مستعد ہونے کی ضرورت ہے کہ اس کی ناک تلے کوئی کسی کا حق ہڑپ نہ کر سکے، نگران پر یہ شعور اجاگر کرنے کا فریضہ ہے کہ دوسروں پر زیادتی کر کے اپنے لئے خیر کی طلب رکھنا بے وقوفی ہے۔ اور نگرانوں کی تربیت کے لئے ہر باشعور اور حساس انسان کو اپنی سی کوشش کرنا ہو گی تا کہ اللہ کی زمین پر فساد برپا ہونے سے روکا جا سکے اور اللہ کا نظام نافذ ہو سکے۔ اللہ بحثیت نگران ہمیں اپنی اور اپنے ماتحتوں کی تربیت کرنے کی توفیق دے اور حق کا ساتھ دینے اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کی توفیق دے۔آمین