عام رواج ہے کہ نکاح سے قبل دیکھنے دکھانے کا سلسلہ لمبے عرصے تک چلتا رہتا ہے۔ ہم جو لڑکا، لڑکی کی پسند معلوم کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لئے کہ ہم ان کو اتنا خود مختار ہی نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار کریں یا ہم اپنی اولاد پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے چناؤ پر خوش ہے۔ حیرت ہے، جس اولاد کو ہم اظہار پسندیدگی یا نا پسندیدگی کرنے کا اختیار دینے کی ضرورت محسوس بھی نہیں کرتے، کیسے ممکن ہے کہ وہ اولاد زوج کی حیثیت سے مضبوط فیصلے لینے کے لئے تیار ہو گی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی حکمرانی کے بقاء کے لئے ایسا کرتے ہیں؟ دوسری صورت میں اگر اولاد نے آپ کے انتخاب پر بھروسہ کیا ہے، فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا ہے تو کیا وہ اولاد صرف نکاح ہوتے ہی نافرمان بن جاتی ہے اور بجائے اس کے کہ نئے آنے والے فرد کو خوشدلی سے ایڈجسٹ ہونے کا موقع دیا جائے۔
ہم ایسی روش اختیار کرتے ہیں کہ وہ آپ سے ہی بدک جاتا ہے۔ کیا ہم اتنے بھی مردم شناس نہیں کہ نئے فرد کے مزاج کی کیفیت، عادات کی خوبصورتی اور معاملات کی خوش اسلوبی کو سمجھنے کی بجائے اسے اپنے سے ہی بد ظن کر دیتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ وہ فرد جو صریحاً آپ کی پسند ہے، اس کی شکایات آپ شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی اس کے زوج سے کرنے لگتے ہیں، وہ زوج جس نے آپ کی پسند کا لحاظ ہی اس لئے کیا ہے کہ یوں گھریلو فضاء خوشگوار اور پرسکون رہے گی، اور آپ ہیں کہ پہلی فرصت میں ہی اپنی اولاد کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ دیکھنے دکھانے کا معاملہ کس حد تک درست ہے اور اگر یہ اس مقصد کو پورا کرنے میں کارگر نہیں، جس کے لئے گھر گھر پہنچا جاتا ہے تو یقینا ہمیں اپنی روش بدلنا ہو گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث میں بھی دیکھنے کی بابت جواز موجود ہے تو وہ لڑکی اور لڑکے کے لئے ہے نا کہ اس رواج کہ حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا نام پر بیٹیوں کی عزت نفس کو کچلا جاتا ہے۔
مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔”(مسند احمد بن حنبل)
ایک دوسری حدیث میں ہے:”جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔”(مسند احمد بن حنبل)
لیکن ایسا نہیں کہ لڑکی اور لڑکا بجائے خود ایک دوسرے سے نکاح سے قبل تعلقات رکھیں، سمجھنے کے نام پر دوستیاں کریں یا والدین سے بغاوت کی روش اختیار کریں، سردست، والدین سے بہتر آپ اپنے لئے تلاش نہیں سکتے، وہ جنہوں نے پیدائش سے اب تک آپ کی ہر ضرور اور جذبے کو سمجھا ہے وہ اب بھی آپ کے حق میں بہتر ہی فیصلہ کریں گے، لیکن قابل مذمت رویہ یہ ہے کہ دیکھنے کے نام پر اپنی فرسودہ سوچ بدلیں اور ہزار گھرانوں کی بیٹیوں کو رد کر کے انتخاب کی جانے والی بہو میں کیڑے نکالنا چھوڑ دیجئے۔ اللہ ہم سب کو حقوق شناس بنائے۔آمین