تاخیر کی شادیاں بہت سوں کے لئے تو فیشن بن چکا، یہ الگ بات کہ اس فیشن کو اپنانے سے بے شمار مسائل نے جنم لیا۔ اللہ نے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے حصے کا رزق لکھ دیا اور پیدائش سے پہلے ہی خوراک بہم پہنچانے کا انتظام بھی کیا۔ خالق اپنے مخلوق کی ضروریات سے بے خبر کیسے رہ سکتا تھا اور انہیں بے یارو مددگار کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ انسان کی ایک اہم اور لازمی ضرورت بلوغت کے بعد جذباتی و نفسیاتی اور ذہنی و جسمانی تسکین کے لئے نکاح کرنا ہے مگر افسوس کہ وہی والدین جو خوراک، لباس کی سہولیات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں نکاح کے معاملے میں عجلت سے کام لینے کی بجائے غیر ضروری تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد جن ذہنی وجسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ مقتضی ہوتی ہیں اس بات کی کہ والدین اولاد میں اعتماد و دوستی کا رشتہ پروان چڑھے۔
والدین اگر اس دور میں اولاد کی بدلتی ہوئی کیفیات میں مناسب رہنمائی نہیں کرتے اور انہیں جذباتی ہیجان کے اس خطرناک دور میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں، انہیں یہ بتانے کی۔ ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے یا بے نام جھجھک کا شکار رہتے ہیں کہ یہ کیفیت نارمل ہے اور اس دور سے ہر نوجوان کو گزرنا پڑتا ہے تو وہ خواہ مخواہ کے احساس جرم کا شکار رہتے ہیں، اس دور میں نو عمر بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے گناہ کیا ہے؟ انہیں تسلی دلائی جانی چاہیئے کہ اس دور میں جنس مخالف کی کشش اور جذبات میں ہیجان فطری ہے مگر جوانی کے منہ زور جذبات پر “ضبط نفس” کا پہرا بٹھانے کی بھی تلقین کی جانی چاہیئے۔ اولاد کو تسلی دلائی جانی چاہیئے اور آپ کے قول عمل سے اس چیز کا اظہار ہوتا رہنا چاہیئے کہ آپ اولاد کی اس فطری ضرورت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور آپ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔
نکاح کے عمل کو والدین جلد کیوں ممکن نہیں بنا پاتے، اس عمل کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں میں سے بعض کو ہم نے بجائے خود رکاوٹ سمجھ لیا ہے مثلا تعلیم۔ نقلی لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کی راہ میں شادی رکاوٹ ثابت نہ ہوئی بلکہ چوٹی کے فقہاء میں ان کا شمار ہوا،2210 روایات کی راوی ہیں حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہے: کَانَتْ عائشۃُ اَفْقَہ الناسِ وَ اَ عْلَمَ الناسِ و اَحْسَنَ النَّاسِ رَأیاً فِیْ العَامَّۃ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک الحاکم).عقلی لحاظ سے بھی فطری ضرورت کی تکمیل کے بعد تو سیکھنے کے عمل میں یکسوئی آجانی چاہیئے۔ فیشن بنا دینا بھی غلط ہے اور خود مختاری کے نام پر تاخیر سے شادیاں اور ذمہ داریوں کی قید سے خود کو آزاد رکھنا بھی غلط ہے۔ کیا ہمارے یہی رویے ٹرانس جینڈر کے قانون کی سر بلندی کا باعث نہیں بن رہے؟
نکاح میں ارادی تاخیر تو معاملہ ہی الگ ہے مگر ایک رویہ اس سلسلے میں عفریت بن چکا ہے اور وہ ہے “دیکھنے” کے نام پر گھر گھر جا کر عزت مآب بیٹیوں کی عزت نفس کو پارہ پارہ کرنا۔ بڑے بڑے مذہبی اور سمجھدار خاندان اس قبیح فعل میں مبتلاء ہیں۔ بھئی،آپ اس جگہ پر جائیں ہی کیوں جہاں آپ کرنا نہیں چاہتے اور جہاں کرنا چاہتے ہیں وہاں بلاجواز تبصرے اور نکتہ چینی چہ معنی؟ اس سلسلے میں گھر سے نکلنے سے پہلے سمجھ لینا چاہیئے کہ کیا واقعی ہم نکاح کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں؟ کیا ہم ارادی تاخیر تو نہیں کرنا چاہ رہے؟ کسی کے گھر میں جاتے ہوئے یاد رکھئے کہ آپ تمدن کے پہلے ادارے “گھر” میں جا رہے ہیں نا کہ مارکیٹ سے اپنی پسند کی شے کی خریداری کرنے جا رہے ہیں جو نہ پسند آئی تو رد کی جا سکتی ہے۔ آپ کو گھر اور مارکیٹ کے قواعدو ضوابط اور اصولوں میں فرق رکھنے کی تہذیب ہے تو آئیے، نکاح کے عمل کو آسان آور جلد ممکن بنانے میں حصہ لیں لیکن اگر آپ میں اتنی بھی تہذیب نہیں اور آپ گھروں اور خاندانوں کو مارکیٹ سمجھ کر داخل ہوتے ہیں تو اللہ کے لئے مہذب اطوار اپنائیے اور انسان ہونے کا ثبوت دیجئے۔ اللہ ہمیں اس قبیح فعل سے بچائے اور نکاح کو آسان بنانے کی توفیق سے نوازے۔آمین