صحیح مسلم شریف میں جناب حضرت ابوہریرہؓ نے سرورِ کونین ﷺسے ایک روایت نقل فرمائی ہے، بنیادی طورپر یہ روایت ایک مسلمان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ہے، متنبہ کرنے والی روایت ہے، ایک ایسی حدیث کہ جسے سن کر ہر مسلمان اپنی معاشرت پر غور کرنے والا بن جائے، اپنے معاملات اور لوگوں کے ساتھ رویوں پر نظر ثانی کرنے والا بن جائے۔
اس روایت کا تعلق بنیادی طورپر انسانی حقوق سے ہے، قیامت کے دن انسان سے حقوق اللہ کا یعنی نماز، روزے وغیرہ سے متعلق جیسے سوال ہوگا اسی طرح سے حقوق العباد سے متعلق بھی سوال ہوگا۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن انسان کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا، نماز سے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔اسی طریقے سے قیامت میں دیگر حقوق میں سے بھی ہر ایک حق سے متعلق پوچھا جائے اور فیصلہ کیاجائے گا،ہر صاحب حق کو اس کا حق دلایاجائے گا، کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی۔
مفلس کون ہے ؟
مسلم شریف کی وہ روایت جسے ہر مسلمان کو یاد رکھناچاہیے اور اس کو سامنے رکھ کر اپنی معاشرت کی فکر کرنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺنے بڑے اہتمام کے ساتھ اولاً صحابہ کرامؓ سے سوال فرمایا :’’جانتے ہو!مفلس کون ہے ؟‘‘سوال سے مقصود آگے ذکر کی جانے والی تعلیمات تھیں، وہ اصل مقصود تھیں، سوال کے ذریعے انہیں متوجہ کرنا مقصود تھا، توصحابہ کرامؓ نے فرمایا :دنیا کے اعتبار سے تو ہم مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس درہم یعنی پیسے نہ ہوں اورساز و سامان نہ ہو۔تو نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ میری امت کا مفلس اور حقیقی مفلس تو وہ آدمی ہے جو قیامت میں اس حال میں آئے گا ‘‘،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، کہ لوگوں کے مظالم اس کی گردن پر ہوں گے۔
گویا سوال کے اس انداز سے معلوم یہ ہوا کہ دنیا کے اعتبار سے اگر کسی کے پاس دراہم دنانیر یعنی روپے پیسے نہیں ، مگر اللہ نے اُسے صحت ، عافیت اور دین کی سلامتی دی ہے ، تو نہ اس کی دنیا خراب ،نہ اس کی عاقبت خراب، گویا یہ تو مفلس ہی نہیں ہے۔بلکہ حقیقی معنوں میں مفلس وہ شخص ہے جو آخرت میں یوں مفلس بن جائے گا کہ اس کی عبادات کا اجر ، اس کی کوتاہیوں اور مظالم کی وجہ سے ختم ہوجائے گا، اور مظالم پھر بھی باقی رہیں گے تو ظلم کے بقدر اس پر خطائیں لادی جائیں گی اور جہنم میں ڈال دیاجائے گا، یہ حقیقی مفلس شخص ہے۔
تو آپ ﷺنے فرمایا : یہ آدمی اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس نمازیں ، روزے اور زکوۃ ہوگی‘‘، یعنی ان اعمال کا اجر و ثواب بھی ہوگا اس کے پاس، دنیا میں اس نے یہ عبادتیں بھی سرانجام دی ہوں گی ۔لیکن ساتھ ساتھ حقوق العباد کے اعتبار سےبڑی کوتاہی کی ہوگی، بندوں کے حقوق کے معاملے میں یہ شخص بڑ اکوتاہ واقع ہوا ہوگا، چنانچہ اس نے ایسے جرائم کیے ہوں گے کہ دنیا میں انہیں گناہ ہی نہیں سمجھا ہوگا، یا ان چیزوں کو دنیا میں بڑ اہلکا سمجھا ہوگا لیکن آج ان سب کا حساب دینا ہوگا۔
چنانچہ ارشاد فرمایا :’’اس نے کسی کو گالم گلوچ کی ہوگی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی مال دبایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارپیٹ کی ہوگی‘‘۔اب ان سب چیزوں کا حساب دیناہوگا ، اور جن لوگوں کے ساتھ یہ حقوق متعلق ہوں گے وہ آج بدلے کا مطالبہ لیے کھڑے ہوں گے۔اب وہاں مال و دولت تو دستیاب نہ ہوگا،لہذا اس آدمی کی نیکیاں ان مظلوموں میں تقسیم کی جائیں گے۔ہر ایک کو اس کے حق کے بدلے میں حق کے برابر اس کی نیکیاں اٹھاکر دے دی جائیں گی، کچھ ایک کو ،کچھ دوسرے کو،یوں بدلہ دیاجائے گا۔اگر اس کی نیکیاں ساری ختم ہوجائیں اور مطالبہ کرنے والے اب بھی باقی ہوں تو مظلوں اور حق داروں کی خطائیں ان کے حق کے برابر ان سے اٹھاکر اس پر ڈال دی جائیں گی، اورپھر اس کے بارے میں فیصلہ ہوگا کہ سزا بھگتنے کے لیے اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے۔اعاذنا اللہ من ذلک۔
معمولی سمجھنے جانے والے گناہوں کا وبال:
دیکھیے!دنیا میں ان میں سے بعض گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا، یا بڑا ہلکا سمجھ لیا جاتاہے لیکن قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ یہ بندوں کے حقوق میں کوتاہی کتنا بڑ اجرم تھا۔غور کیجیے!اس روایت میں رسول اللہ ﷺنے گالم گلوچ کا ذکر کیا، عزت وآبرو کا ذکرکیا، کسی کے مال پر قبضہ کرنے کا ذکرکیا کہ یہ سب اعمال قیامت میں بڑے بھاری ثابت ہوں گے، اور دنیا میں لوگ انہیں بہت ہی معمولی سمجھتے ہیں، کسی کو گالم گلوچ کی ،کوئی پرواہ نہیں کرتے ،کسی کو مارپیٹ کی ،کوئی پرواہ نہیں، کسی کا مال لے لیا، چوری کیا، غصب کیا، لے کر واپس نہیں کیا، کسی کا حق بنتا ہے وہ دیا ہی نہیں، اس کو ہلکا سمجھ لیاجاتاہے، لیکن قیامت میں ایک ایک ذرے کا حساب دینا ہوگا۔معلوم ہوا کہ انسان کی جان، مال اور آبرو کی ہمارے دین میں بڑی قدر وقیمت ہے، اسی لیے نبی کریم ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں بڑے اہتمام کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کو متوجہ کیا ،سوال کیا، اور پھر خود ارشاد فرمایا کہ دیکھو!یہ ذوالحجہ کا مہینہ ہے، قربانی کا دن ہے،حرمت والا شہر ہے، جیسے ان سب چیزوں کی حرمت اور عظمت ہے اسی طرح تمہاری جانیں، اموال اور عزت وآبرو کی بھی حرمت ہے ۔
مذکورہ حدیث کی اہمیت اور سبق:
تو یہ روایت حقوق العباد سے ایک اہم روایت ہے ، اور ہرمسلمان کو حقوق العباد کی اہمیت بتلارہی ہے ،کہ بسااوقات بندے کا حق، شریعت کے حق پر مقدم ہوجاتاہے، حقوق العباد سے متعلق اس حدیث کی شرح میں محدثین نے لکھا ہے :’’کہ اس روایت سے معلوم کہ حقوق العباد میں قیامت کے دن معافی بھی نہیں ہوگی سفارش بھی قبول نہ ہوگی، الا یہ کہ مدمقابل کو اللہ تعالیٰ راضی فرمادیں ‘‘۔ اور اس حدیث کو سامنے رکھ کر بعض بزرگوں نے یہ ارشاد فرمایا ہے :’’اس میں بڑی سخت سزا اور شدت کا بیان ہے، عقلمندوں کو اس حدیث سے سبق لینا چاہیے‘‘۔
حقوق کی ادائیگی کا طریقہ:
اگر کسی کے اوپر کسی کا حق بنتا ہو تو وہ ادا کردینا چاہیے، کسی پر کسی کا مالی حق ہو ، تو صاحب حق کو اس کا حق ، اس کا مال واپس لوٹادیا جائے، اور گر صاحب حق انتقال کرچکا ہوتو شریعت میں حکم ہے کہ اس کے ورثاء کو پہنچائیں، ورثاء بھی نہیں مل رہے تو صاحب حق کی طرف سے اتنی رقم صدقہ کردی جائے نیت کی جائے کہ اس کا ثواب صاحب حق کو پہنچ جائے۔ اور کسی کی غیبت کی ہے، تہمت لگائی ہے، مارا پیٹا ہے وہ شخص موجود ہے تو اس سے معافی تلافی کروادی جائے، موجود نہیں ہے تو اس کے حق میں دعا کی جائے ، نیک اعمال کرکے اس کو ثواب بخش دیاجائے ، یوں اللہ تعالیٰ قیامت میں اس شخص کو راضی فرمادیں گے،اور اس کی جان بخشی ہوجائے گی۔
حاصل یہ ہے کہ جیسےنماز ضروری ہے، روزہ لازم ہے، زکوۃ و صدقات ضروری ہیں، اسی طرح معاشرت کا درست کرنا بھی ضروری ہے۔اللہ ہمیں دنیا وآخرت کی مفلسی سے محفوظ فرمائے،اور ہمارے اعمال کی اور ان کے اجر وثواب کی حفاظت فرمائے۔