گھر کے سب افراد مل بیٹھ کر ڈرامے دیکھا کرتے تھے ان سے لطف اٹھاتے تھے وہ ڈرامے اصلاح کا کام کرتے تھے ذہنوں کی بھی اور معاشرے کی بھی، آج مل بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا تو دور کی بات اکیلے ميں بھی، آج کے ڈرامے شرم سے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیتے ہیں، ٹی وی لگائيں تو کسی ڈرامے ميں دو لڑکے اور ایک لڑکی کی کيمسٹرى دکھائی جا رہی ہے ، لڑکی شادی شدہ ہے يا کنواری ، اسکی پروا کئے بغير پيار و محبت کى پينگيں بڑھتی دکھائی جاتی ہيں چينل بدل ليں تو دوسرے ڈرامے ميں دو لڑکیاں اور ایک لڑکے کى کيمسٹری نظر آتى ہے، کنوارے يا شادى شدہ ، محرم يا نامحرم ، غلط اور صحيح سب فرق مٹائے جارہے ہيں ، پيار و محبت ميں سارى اخلاقی حدود پامال ہوتی دکھائی جارہی ہيں۔
کہیں شادی شدہ ہونے کے باوجود لڑکی کا اپنے باس اپنے دیور جیٹھ اپنے کزن یا کسی بھی راہ چلتے سے انسیت و وابستگی ہو جانا قدرتی بات بتایا جارہا ہے، کہيں شادى شدہ دو چار بچوں کے ہنستے مسکراتے ماں باپ کو اچانک سے طلاق يافتہ بنايا جارہا ہے، آج نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ليے بھى نہ طلاق انہونہ لفظ ہے نہ خلع، فيملی ڈرامے بھى عجيب و غريب فلاسفی پر بنائے جارہے ہيں، کسى ڈرامے ميں ماں جابر ہے تو کسى ميں بہن فتنہ، کسى ڈرامے ميں بيوى مشکوک ہے تو کسى ميں بيٹی آفت کی پرکالہ، جٹھانی سازشی تو ديورانی فسادن۔
يا الہى اس ميڈيا نے تو کسى کو بھى نہيں بخشا، يہ تو سب ہى رشتوں کا تقدس پامال کر رہا ہے، يہ ميڈيا تو خاندانى نظام کو توڑ رہا ہے اس کى جڑوں کو کمزور کر رہا ہے، ہمارى آئندہ آنے والى نسلوں کے دل و دماغ پر منفى اثرات مرتب کر رہا ہے ، يہ شکوک و شبہات کى وہ فضا پيدا کر رہا ہے کہ جہاں ہر کوئی دوسرے کو اپنا دشمن تسليم کيے بيٹھا ہے ،چاہے وہ خونی رشتے ہى کيوں نہ ہو، ايسے ميں عوام ٹی وی پر ديکھے تو کيا ديکھے۔