چینی معاشرے اور ثقافت میں چائے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چائے سے منسلک کچھ روایات، چائے سے جڑے کچھ لوازمات، اور لوگوں کی پسندیدگی کے مختلف معیارات چینی چائے کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں۔ چینی معاشرے میں اگر چائے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پانچ ہزار سال پیچھے جانا پڑے گا۔بتایا جاتا ہے کہ ایک چینی بادشاہ شین نوننگ نے اپنے دورِ حکومت میں جہاں دیگر فرمان جاری کئے، ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ صحت مند اور توانا رہنے کے لئے پینے کے پانی کو استعمال سے قبل ضرور اُبالا جائے۔ گرمیوں کی ایک دوپہر اپنی سلطنت کے ایک دور دراز علاقے کے دورے کے دوران بادشاہ اور ان کے درباری ایک مقام پر سستانے کی غرض سے رُکے اور بادشاہ سلامت کے لئے پانی اُبالا جارہا تھا کہ اسی دوران نزدیکی جھاڑی سے کچھ پتیاں، اُبلتے پانی میں آگریں اور پانی کا رنگ فوری تبدیل ہوگیا۔اب بادشاہ کے دل میں پانی کے اِس نئے ذائقے کو چکھنے کی خواہش نے جنم لیا۔ جب انہوں نے پتیوں ملا رنگ دار پانی پیا تو ذائقے دار بھی لگا، سو یہیں سے چائے کا آغاز ہوتا ہے اور یہ دور تھا، 2337ء قبل مسیح۔ اِس وقت سے لیکر آج تک چین میں چائے کو مختلف تقاریب میں نمایاں اہمیت حاصل ہے بلکہ یوں کہا جائے کا چائے کا راج ہے تو بیجا نہ ہوگا۔
ابھی حال ہی میں چین کے چائے بنانے کے روایتی طریقہ کار اور متعلقہ ثقافت کو غیر مادی ثقافتی ورثوں کی عالمی فہرست میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس سے قبل اس حوالے سے یونیسکو کا ایک جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں چین میں چائے بنانے کی روایتی تکنیک کی عالمی ثقافتوں ورثوں کی فہرست میں شمولیت کا جائزہ لیا گیا۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ اب تک عوامی جمہوریہ چین کی کل 43 اشیاء یونیسکو کی عالمی غیر مادی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل ہیں جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔چین نے اس پیش رفت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ثقافتی تنوع اور انسانی تخلیقی صلاحیتوں کے احترام کو فروغ دینے میں مزید مدد ملے گی۔
اگر چینی معاشرے میں چائے کے استعمال کی بات کی جائے تو اِس میں بھی آپ کو مختلف رنگ ملیں گے۔ کچھ لوگ چائے کو پیاس بجھانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ کے نزدیک چائے پینے سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ بعض افراد تو فطری ماحول سے محبت، موسیقی میں دلچسپی اور باہمی روابط استوار کرنے میں بھی چائے کے معترف نظر آ تے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ، چین میں معیاری چائے کے بھی پیمانے وضع کئے گئے ہیں۔چین میں چائے کو جن خصوصیات کی بناء پر پرکھا جاتا ہے، اِس میں پہلی خاصیت چائے کی رنگت، دوسری چائے کی خوشبو، تیسری خاصیت چائے کا ذائقہ ہے اور آخری چیز چائے سیٹ ہے، مطلب چائے پیش کرنے کے لئے کس قسم کے برتن استعمال کئے گئے ہیں۔ مختصراً یہی کہ برتن جتنا معیاری اور اچھا ہوگا، اتنی ہی چائے کے لئے پسندیدگی بڑھے گی۔چین میں چائے پینے کے بھی کچھ اُصول ہیں، مثلاً چائے آپ نے گرم گرم ہی ختم کرنی ہے، ایسا نہیں کہ ساتھ ساتھ دفتر کا کام جاری ہے اور چائے ٹھنڈی ہی ہوجائے۔ اِس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ چائے میں موجود مفید اجزاء سے لُطف اندوز صرف گرم چائے سے ہی ہوا جاسکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ زیادہ کڑک چائے نہیں پینی ہے بقول، چینی افراد کہ زیادہ کڑک چائے انسانی معدے کے لئے نقصان دہ ہے۔چائے پینے کے لئے بہترین اوقات کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب جی چاہا چائے پی لی، چینی افراد کھانے سے کچھ دیر قبل یا فوری بعد چائے نہیں پیتے۔ کہتے ہیں کہ اگر کھانے سے پہلے چائے پی لی تو بھوک ختم ہوجائے گی اور اگر فوری بعد پی تو بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ایک اور اہم بات جس کا چینی افراد بہت خیال رکھتے ہیں کہ چائے کے ساتھ کسی بھی قسم کی ادویات کا استعمال نہیں کریں گے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں ہم بخار یا سردرد کی گولی بھی اکثر چائے کے ساتھ ہی لیتے ہیں۔ ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دفاتر، گھر اور ہوٹل میں پی جانے والی چائے میں بھی فرق ہوگا۔ مثلاً دفاتر میں زیادہ گرین ٹی یا سبز چائے استعمال کی جائے گی، اِس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ سبز چائے میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کمپیوٹر سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی جسم کو بچانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں اور اِس کے علاوہ انسانی جسم میں سبز چائے نمی کی مقدار کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔چین میں چائے کی مختلف اقسام کے حوالے سے دیکھیں تو ان کو گرین ٹی، بلیک ٹی، ڈارک ٹی، اولانگ ٹی، اور وائٹ ٹی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک اور بات نہایت اہم ہے کہ پورے چین میں چینی کے بغیر چائے پینے کا رواج ہے، کیونکہ چین کے لوگ چینی کے زیادہ استعمال کو صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور موٹاپے کی بڑی وجہ بھی چینی کے زیادہ استعمال کو قرار دیتے ہیں۔ اگر معاشی اعتبار سے دیکھیں تو چین میں چائے کی صنعت ملک کی معاشی ترقی میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔