پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ترقی پزیر حتیٰ کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اکثر تعلیم یافتہ افراد بے روزگاری کے باعث مختلف سماجی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور مایوسی اور ناامیدی اُن کی شخصیت کو بھی بری طرح مسخ کر دیتی ہے۔کووڈ۔19 کی حالیہ وبائی صورتحال نے بھی روزگار کی فراہمی کو مزید مسائل سے دوچار کیا ہے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں بدستور مشکلات درپیش ہیں۔
اس ضمن میں چین سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ چین چونکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے لہذا یہاں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے موئثر حکومتی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص فراہمی روزگار میں نوجوانوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ”نیشنل ریکروٹمنٹ ایکشن” کے چوتھے سیزن کا باضابطہ آغاز ہے۔ یہ سیزن چائنا میڈیا گروپ اور چین کے دیگر اہم محکموں کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے۔ چائنا میڈیا گروپ کے سربراہ شین ہائی شیونگ کے مطابق ”نیشنل ریکروٹمنٹ ایکشن” سی ایم جی کی جانب سے میڈیا کی سماجی ذمہ داری پر عمل پیرا ہونے کی ایک ٹھوس کاوش ہے، اور یہ تمام وزارتوں اور کمیشنز کے لئے مشترکہ طور پر روزگار کی بہتر فراہمی کا ایک قومی منصوبہ بھی ہے۔ چائنا میڈیا گروپ اس منصوبے کے معیار کو مزید بہتر بنائے گا، تاکہ زیادہ سے زیادہ باصلاحیت افراد روزگار تلاش کرسکیں، اور عملی کامیابیوں کے ساتھ ایک نئے سفر اور قابل قدر کامیابیوں کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکیں۔یہ بات قابل زکر ہے کہ اب تک مجموعی طور پر 41،558 انٹرپرائزز ”نیشنل ریکروٹمنٹ ایکشن” کے پہلے تین سیزنز میں 3.51 ملین سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کر چکی ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ ملک میں وبا کے خلاف جاری جنگ کے باعث جاب مارکیٹ کو اضافی دباؤ کا سامنا ہے۔ انہی حقائق کے پیش نظر، حکومت کی کوشش ہے کہ موثر اقتصادی و مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے روزگار کے مزید مواقع پیدا کیے جائیں۔ساتھ ہی، مجموعی روزگار کو ترجیح دینے اور جاب مارکیٹ کے ساختی مسائل کو دور کرنے کی کوششیں کی جائیں۔چین کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وبائی صورتحال کے دوران جہاں دنیا بھر کی معیشتوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے اور بے روزگاری کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوتا جا رہا ہے، وہاں چین نے گزشتہ برس بھی ملک بھر کے شہری اور دیہی علاقوں میں 12.07 ملین نئی ملازمتیں پیدا کیں جو کہ سالانہ ہدف سے زیادہ رہی ہیں۔
ملک میں کاروباری اداروں کی پیداوار اور آپریشن کے امور میں نسبتاً استحکام نے روزگار کی طلب اور روزگار کی ترقی کے لئے بنیادی مدد فراہم کی ہے جبکہ روزگار کی ترجیحی پالیسیوں کا ایک سلسلہ مکمل طور پر نافذ کیا گیاہے تاکہ مستحکم روزگار کی صورتحال کو آگے بڑھایا جا سکے۔چین میں روزگار کی فراہمی میں انوویشن انٹرپرینیورشپ روزگار کی ترقی کے لیے ایک پائیدار محرک کا کردار ادا کر رہی ہے۔چین کے نزدیک اعلیٰ معیار کی ترقی کے فروغ میں روزگار کے ترجیحی رجحان کی مضبوطی اور معاشی ترقی کے لیے روزگار کی محرک قوت میں اضافہ نہایت ضروری ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول کے لیے ”جاب فرسٹ پالیسی” کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے اور روزگار کے فروغ میں اقتصادی ترقی کے کردار کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔اس مقصد کی خاطر ملک میں مالیاتی، سرمایہ کاری، صنعتی اور دیگر پالیسیوں کی ضرورت پر مزید زور دیا جا رہا ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں، معاشی ترقی کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے اور قلیل اور متوسط آمدنی والے گروہوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اسی باعث نوجوانوں بشمول کالج گریجویٹس کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور لچکدار روزگار اور سماجی تحفظ کی پالیسیوں کو بہتر بنایا جا
رہا ہے۔ اسی طرح شہری اور دیہی علاقوں میں ای کامرس جیسے جدید منصوبوں سے بھی روزگار کے مسئلے کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔چین کی کوشش ہے کہ ”سپلائی اور سروسز ” کو بہتر بناتے ہوئے مزید ملازمتیں پیدا کی جائیں، جبکہ کیریئر کی رہنمائی اور پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دیا جائے جس سے پرائمری سطح کی کمیونٹیز میں ملازمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔چین کا فراہمی روزگار کا یہ عملی ماڈل پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے جس کی روشنی میں نوجوانوں کو خودروزگار کی جانب لے جانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔