اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 17 ویں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے، جنرل عاصم منیر اس سے قبل دو اہم خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ سمیت اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی ہے کہ جب عسکری ادارہ دفاع وطن کے علاوہ ایسے مسائل اور چیلنجز کا شکار ہے جو ان سے پہلے کسی آرمی چیف کے حصے میں نہیں آئے۔ افواج پاکستان اور عوام پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات اور ہم آہنگی، پاک فوج کے بلند مورال کے لئے فلاحی اقدامات، سرحدوں کی حفاظت، بیرونی سازشوں کے سدباب، عالمی طاقتوں کے ساتھ بہترین تعلقات، فوج کے غیر سیاسی کردار سمیت بہت سے چیلنجز انہیں درپیش ہیں۔ پاکستان مضبوط ریاست ہے جس کی افواج دنیا کی 146 میں سے نویں نمبر کی بہترین آرمی ہے، جس کی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی طاقتورترین اور بہترین ہے ،جس ملک نے اپنے سے تین گنا بڑے ملک کے ساتھ جنگ میں کامیابیاں سمیٹیں، جس ملک کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف مسلسل اور انتھک جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، جس کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جہاں ہرطرح کا پھل پایا جاتا ہے، جہاں ہر طرح کی زرعی خوراک پائی جاتی ہے۔ مملکت خداداد کو اللہ ربّ العزت نے تمام نعمتوں سے نوازا ہے بس یہاں کمی ہے تو سیاسی بصیرت اور استحکام کی جس کی بنیادی زمہ داری عوامی نمائندگان پر ہے لیکن برقسمتی سے پاکستان میں ہر دن سیاسی اکھاڑے کا دنگل لگا رہتا ہے، جوکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتا ہے وہیں موقر ملکی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں نئے آرمی چیف کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کے اندر فوج کے بارے میں موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے جو غلط تاثر سرایت کر گیا ہے اس کو بہتر بنانا ہے، کیونکہ جو فوج اپنی عوام کی نظروں میں اپنی اہمیت گنوا بیٹھے یا ان کا اعتماد کھو دے تو یہ دنیا کی کسی بھی فوج کے لیے سب سے بڑی ناکامی تصور ہو تی ہے۔ پاکستان جیسے سکیورٹی مسائل اور طبقاتی تقسیم والے ملک میں سکیورٹی اداروں پرسے عوام کا اعتباراوروقار اٹھ جانا ایک خطرناک اور تشویش ناک امرہوگا ۔ لہٰذا پہلی ضرورت عوام پاکستان کے ذہنوں میں پائی جانے والی بے بنیاد غلط فہمیوں کو دور کرکے مسلح افواج اور عوام پاکستان کے درمیان عزت و وقار کے رشتے کی بحالی ہے۔ آج پاکستان جن اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا کر رہا ہے، جن میں پڑوسی ممالک کی سازشیں، ریشہ دوانیاں، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں،سرحد پار دہشت گرد حملوں اور ففتھ جنریشن وار سمیت بے شمار اندرونی وبیرونی مسائل کا شامل ہیں، ایسی صورتحال میں قوم ہمیشہ اپنی افواج پر نظر رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ادارہ پاکستان کی مسلح افواج ہیں اور افواج پاکستان کو جہاں عالمی سطح پر پاکستان کا سب سے منظم اور ترقی یافتہ ادارہ سمجھا جاتا ہے، وہاں پاکستانی معاشرے میں بھی پاک فوج کو بے پناہ عزت حاصل ہے، اور عوام پاکستان اس ادارے کو اپنی حفاظت کا ذمہ دار اور اپنی قربانیوں کا امین تصور کرتی ہے۔ بلوچستان ، وزیرستان سے لے کر کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک دنیا کی مشکل ترین ،دشوار گزار جگہوں اورسخت ترین حالات کا مقابلہ کرتی ہماری افواج دشمنوں کے مقابلے میں نہایت کم وسائل میں بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
بہادر مسلح افواج نا صرف جانی قربانیاں پیش کر رہی ہے بلکہ خطے کے سب سے بڑے جارحانہ ملک کامقابلہ، دہشت گردی کا خاتمہ، پاکستان کی سویلین گورنمنٹ کی مشکل اوقات میں امداد، زلزلہ زدگان، سیلاب متاثرین کی امداد کے ساتھ ساتھ قلیل بجٹ میں اپنے اپریٹنگ اورآپریشنل اخراجات پورے کرتی ہے، اور انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے بھی بھرپور طور پر نپٹتی آئی ہے۔ نئے سپہ سالار کو درپیش ایک اہم چیلنج مسلح افواج کے سیاسی کردار کو محدود کرنا ہوگا، پاکستان جیسے گروہوں، فرقوں، برادریوں اور علاقوں میں بٹے ملک میں یہ تو ممکن نہیں کہ فوج اور اس کے اداروں کا پاکستان کی سیاست میں کردار مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ لیکن نئے آرمی چیف کو عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کیساتھ چلنا ہو گا، جس میں ان کو فوج، سیاست اور انتظامی امور میں ایک توازن رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ ان کو پرانے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ نئی راہوں کا بھی تعین کرنا ہو گا۔ فوج کے غیر سیاسی ہونے سے جہاں ان کو تنقید کا سامنا رہے گا وہاں اس سے حقیقی جمہوری اقدار پروان چڑھے گی۔ فوج کے غیر سیاسی ہونے سے پاکستان میں سیاسی استحکام کوفروغ ملے گا، فوج اور عوام کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے۔ غیرسیاسی ہونے سے ریاستی ادارے اپنے امور سرانجام دینے میں موثر ثابت ہوں گے۔ بے شک ہر ہر لمحہ عوام پاکستان کی دعائیں نئے سپہ سالار اور پاکستان کی بہادر مسلح افواج کے ساتھ ہیں۔