ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
29نومبر کو دنیا میں یوم یکجہتی فلسطین منایا جاتا ہے ۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ یہ عالمی دن اور ہفتے کیوں منائے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی دن اور ہفتے عوام میں تشویش سے آگاہ کرنے، عالمی مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹنے، سیاسی عزم کو متحرک کرنےکے لیے منائے جاتے ہیں۔
29 نومبر کا دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین سب سے عالمگیر مسئلہ ہے نوجوان نسل کے لئے دلچسپ بات یہ ہوگی اقوام متحدہ ہی نے عالمی ٹھیکیدار بن کر فلسطین کے پہلے دو ٹکڑے کیے ۔ پھر 1977 سے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا دکھاوا شروع کر دیا۔ سونے پر سہاگہ فلسطین کے حقیقی باشندے جو کہ اکثریت میں تھے انہیں 45 فیصد اور پوری دنیا سے لا کر غیر قانونی طور پر یہاں پر بسائے گئے یہودیوں کو 55 فیصد حصہ دیا گیا۔
اعدادوشمار کی بات کریں تو 1918 میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 55 ہزار تھی جبکہ 1948 میں وہ چھ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ۔ یہ دن جہاں اقوام متحدہ کی بے حسی کا احساس دلاتا ہے اوراس حقیقت سے بھی آشنا کرتا ہے اقوام متحدہ کا قیام ہی بڑی طاقتوں کے خفیہ مقاصد کو پورا کرنا اور مظلوم ممالک کو دلاسہ دینا ہے ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ایک جائزریاست کا سرٹیفکیٹ بھی عنایت کردیا اور فلسطین کو لاکھ کوششوں کے باوجود آج بھی مبصر کی حیثیت ہی حاصل ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا دیکھیں کہ فلسطینی علاقے وقت کے ساتھ ساتھ مزید سکڑتے جا رہے ہیں اور عملی طور پر فلسطین کی حکومت صرف غزہ تک محدود ہے جو کہ یہاں کے لاکھوں لوگوں کا مہاجر کیمپ ہے ۔عالمی دہشت گرد اسرائیل جب چاہتا ہے یہاں پر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر دیتا ہے اور مذکورہ بالا اقوام متحدہ کی قرارداد جس میں فلسطین کو تقسیم کیا گیا اس میں بیت المقدس کو عالمی ادارے کے حوالے کرنا تھا جب کہ امریکہ کی مدد سے آج وہ بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے اس کے علاوہ اہم فلسطینی قیادت کو قتل کر کے اپنا راستہ ہموار کرنا بھی اسرائیل امریکہ سازش کا حصہ ہے۔
بہر حال اغیار سے کیا شکوہ جب اپنے ہی بےبسی کا مظاہرہ کریں ۔ کہنے کونہ صرف 57 اسلامی ممالک اور ایک متحدہ اسلامی لشکر کی موجودگی میں آج بھی مظلوم فلسطینی کسی بہادر اور غیرت مند صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران کے منتظر ہیں۔ آج مغرب نواز ہمارے حکمران اور دانشور ہمیں یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ چھوڑو فلسطین کو پاکستان کی فکر کرو یہی وہ زہر ہے جو امت مسلمہ کی رگوں میں اتارا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد ہمیشہ سے فلسطین کے ساتھ رہے اور آج بھی ہم ہمیشہ کی طرح ہماری غیرت مند قوم فلسطین کے ساتھ ہی ہے۔
ہاں کچھ لبرل جو کہ مغرب کی امداد کے محتاج ہیں اور وہ ہمیشہ ہی محتاج رہیں گے وہ ہمیشہ ہی سے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے رہیں گے بہرحال پاکستان کے حکمران ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب لے آئے ہیں اور حقیقت میں بھکاری کبھی کسی کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے جبکہ امیر عرب ممالک بھی عیاشی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کے اس رویے کو شیخ احمد یاسین نے ایسے بیان کیا ہے کہ ہم چھوٹے تھے تو سمجھتے تھے کہ یہ یہود غزہ پر قابض ہیں بڑے ہو کر پتہ چلا کہ وہ تو پورے عرب پر قابض ہیں سوائے غزہ کے۔
اہل علم او اہل اسلام سے گزارش ہے کہ مخلص ہوکر مسئلہ فلسطین کو جس قدر جس بھی جگہ اٹھانے کا موقع ملے ضرور اٹھائیں اور ان کے لیے دعا کیجئے کہ رب کائنات غیب سےان کی مدد کرے۔ آمین۔