ايک پرائيويٹ ٹی وی چينل کے مارننگ شو ميں ايک ڈانسر لڑکی کا مدعو ہونا، حاضرين ميں موجود مرد حضرات کا اس کے ڈانس اسٹپس پر کھلے عام تبصرے کرنا، ميزبان خاتون کا بارہا ماشاءاللہ ماشاءاللہ کہنا اور مرد جضرات کا اس ڈانسر کے ليے واہ واہ کی صدائيں بلند کرنا۔
آجکل زبان زد عام يہ قصہ معروف چينل ARY سے نشر ہونے والے ندا ياسر کے مارننگ شو کا ہے جس ميں عائشہ نام کے ايک ٹک ٹاکر کو رول ماڈل بنا کر پيش کيا گيا ہے اور اس کی وائرل ہونے والی ڈانس وڈيو کی خوب خوب پذيرائی کی گئی ہے۔
يہ انتہائی دکھ کا مقام ہے اور لمحہ فکريہ ہے کہ پرائيويٹ چينلز نجانے کن اخلاقی قدروں پر چل رہے ہيں؟ پيمرا کيا کر رہا ہے؟ مارننگ شوز کا فارميٹ کيا رکھا جاتا ہے؟ کيا صرف ريٹنگ اور ناچ گانا؟۔
دکھ کی بات تو يہ بھی ہے کہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ کا ورد کرتی پروگرام کی ميزبان ندا ياسر کو اتنا علم بھی نہيں ہے کہ ماشاءاللہ کے الفاظ کہاں استعمال کيے جاتے ہيں۔
يہ علم کا زوال ہے اور يہ اخلاقی زبوں حالی کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ميڈيا کو پتا ہی نہيں ہے کہ وہ ايک اسلامی ملک کا ميڈيا ہے پاکستان کی جو تصوير کشی وہ کر رہا ہے اور جو کچھ وہ دکھا رہا ہے اس کا اثر کتنا منفی اور نتائج کتنے دور رس ہونگے۔
ميڈيا ريٹگ کے چکر ميں اس بات سے بھی لا تعلق ہے کہ دنيا ميں پاکستان کا کيا اميج بن رہا ہے اور بن گيا ہے، ميڈيا کی اس خودسری سے پانی سروں تک تو پہنچ ہی چکا ہے اب اس سے پہلے کہ پانی سروں سے بھی گزر جائے، ہميں اپنی اخلاقی حدود مقرر کر لینی چاہيں، ہمارا اسلامی تشخص ہماری پہچان ہے ہميں اسے بچا نا ہوگا۔