ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے درد کی دوا کرےکوئی
مرزا غالب کو تو اللہ جانے کس طرح کا درد تھا جس کی وہ دوا مانگ رہے تھے مگر پاکستان میں مہنگائی کے ہاتھوں ستائے جانے کا درد یقیناً سب کا مشترک ہے
جس کی دوا ڈھونڈنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتا، فی زمانہ مہنگائی کی تعریف ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ “مہنگائی دراصل وہ بم ہے جو حکومت کی جانب سے عوام پر گرایا جاتا ہے اور نہتے عوام حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”
آج مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے خواہ تاجر ہو یا آجر، بینکار ہو یا صنعت کار، ملازمت پیشہ ہو یا دیہاڑی دار مزدور سب کے سب ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں لیکن سب سے زیادہ متوسط طبقہ اس عذاب میں گرفتار ہے کیونکہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا۔
امیر طبقہ کو تو مہنگائی سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور غریب مسکین لوگ بھی دست سوال دراز کرکے اپنی ضروریات پوری کر لیتے ہیں مگر متوسط طبقہ جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔
حالیہ مہنگائی نے تو ویسے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دودھ دو سو روپے لیٹر ہے ،انڈے فی درجن ڈھائی سو روپے سے اوپر ہیں، تیل اور گھی میں اضافہ کو دیکھ لیں ، تیل ساڑھے پانچ سو روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا ہے ،چینی، دالیں، چاول، دیگر مصالحہ جات غرض کہ تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ رہی سہی کسر آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافے نے پوری کر دی ہے جس نے غریب سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی مگر ارباب اختیار کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
غریب شہر کے بچوں کو میسر نہیں روٹی
امیر شہر کے کتے بھی کھاتے ہیں بسکٹ
اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی بات کریں تو “پیاز” اور ٹماٹر جن کے بغیر پاکستانی کھانوں کا تصور بھی محال ہے وہ بھی دو سو روپے فی کلو سے نیچے نہیں اتر رہے ہیں باقی سبزیوں کی قیمتیں بھی چار گنا تک بڑھ چکی ہیں۔ بینگن جسے اکثر لوگ منہ نہیں لگاتے تھے اب وہ لوگوں کو منہ چڑا رہا ہے کہ ہمت ہے تو مجھے خرید کر دکھاؤ اور پھلوں کی قیمت کا تو کیا کہنا ، ایسا لگتا ہے کہ چند دنوں بعد تمام دکاندار ایک بورڈ لگا دیں گے جس کے اوپر لکھا ہوگا ” برائے کرم شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ کے مریض دکان سے دور رہیں ورنہ قیمت سن کر آپ کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔
مہنگائی جس حساب سے بڑھ رہی ہے ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں اس لحاظ سے اضافہ نہیں ہورہا وہ بیچارے اپنی قلیل تنخواہ میں مکان کا کرایہ، یوٹیلیٹی بلز، بچوں کی فیسیں(اسکول، مدرسہ، ٹیوشن )، گروسری، دودھ، گوشت، سبزیاں، پھل اور دوائیاں خریدیں یا پھر عید، بقر عید اور شادی بیاہ کی تقریبات کے لئے کچھ بچت کریں (جو کہ ناممکن ہے) بچت کا لفظ تو اب لوگوں کی زندگی سے ہی نکل گیا ہے۔
غریب طبقہ کو تو چھوڑیں متوسط طبقہ کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کل چوری، ڈاکے اور لوٹ مار میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اس کے علاوہ آئے روز ہمیں اس طرح کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کے غربت سے تنگ آکر چار بچوں کے باپ نے خودکشی کرلی یا پھر کوئی غریب ماں اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا نہ دیکھ سکی اور بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دی ۔
یہ تو بوجھ اٹھانے والے جانتے ہیں
مہنگائی سر اٹھائے تو کیا ہوتا ہے
سیانے کہتے تھے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں مگر اب تو چادر دوپٹہ بنتی جا رہی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اگر چادر بڑی نہیں کرسکتے تو اپنے آپ کو سمیٹ کر اسی چادر کے اندر رہنے کی کوشش کریں یعنی جو چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہو جائیں ان کا استعمال کم سے کم کر دیں جب بھی بازار جائیں تو چیزیں خریدنے سے پہلے اپنے آپ سے سوال ضرور کریں! کیا یہ چیز ابھی لینی بہت ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں میں آئے تو لیں ورنہ رہنے دیں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ہم سپر اسٹور سے فضول میں بہت سی چیزیں اٹھا کر لے آتے ہیں اور رکھ کر بھول جاتے ہیں لہذا جب جس چیز کی ضرورت ہو وہی خریدیں۔
اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین