بردبار اور صلح جو انسان اکثر کمزور خیال کیا جاتا ہے، دو بدو جواب دینے والے اور جھگڑالو شخص سے نبٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا بلکہ ایسے شخص سے سوچ سمجھ کر ہی معاملات کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس زیادتی برداشت نہ کرنے والا شخص اور اپنا حق حاصل کرنے کے لئے مقابلے پر اتر آنے والا شخص بھی زندگی سہل جی لیتا ہے جو اس بات کی فکر نہیں کرتا کہ مجھے غلط سمجھا جائے گا، منہ پھٹ یا جارح سمجھا جائے گا۔ لیکن مشکل میں وہ اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے جو جارح بھی خود کو کہلوانا نہیں چاہتا، لوگوں کی سطح پر بھی نہیں آنا چاہتا مگر اپنا حق لینا چاہتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ نبی مہرباں ﷺ بردبار، نرم خو اور صلح جو انسان تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “اللہ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے ہراس شخص پر جو خوش مزاج، نرم خو، ملائمت پسند اورلوگوں سے قریب رہنے والا ہو۔” (مسند احمد)
بلاشبہ آپ ﷺ بردبادی کا مثالی نمونہ ہیں، سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ترجمہ :’’پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا ہے۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو اٹھا کر ان کے اوپر رکھ دوں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘۔(صحیح مسلم)
بردبار چنیں تو اتنے اعلیٰ پائے کے، کہ دنیا رشک کرے۔ خیر کے فروغ کی امید آپ کو کبھی منتقم مزاج اور جارح نہ بننے دے۔ آپ بظاہر اچھائی کا دعویٰ کرنے والوں سے کہیں نہ کہیں نیک روئیے کہی امید باندھ لیتے ہیں یہی چیز آپ کو کمزور کرتی ہے۔ آپ کو یہ چیز پریشان کرتی ہے، بقول شاعر
وہ جھوٹ بولے گا اور جیت جائے گا
میں سچ بولوں گی مگر ہار جاؤں گی
مگر آپ یہاں پر لوگوں کو فیصلہ ساز ماننے کی غلطی کر رہے ہیں۔ فیصلہ ساز اللہ ہی ہے وہی فیصلہ کرے گا، نیتوں کو وہی جانتا ہے۔ اسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، اس کی آنکھوں میں دھول نہیں جھانکی جا سکتی۔ اسوہ نبی ﷺ سے درس لیتے ہوئے دور اندیشی رویہ اپنائیں گے تو بردباری پر قائم رہیں گے ورنہ تھک جائیں گے،ٹوٹ جائیں گے اور لوگ آپ پر غالب آ جائیں گے۔دعا کیا کیجئے:
اللَّھُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ۔
ترجمہ ” اے اللہ ! میں پناہ چاہتا ہوں تیرے ذریعے سے پریشانی اور غم سے، عاجز ہونے اور کاہلی سے اور بزدلی اور بخل سے قرض کے بوجھ اور لوگوں کے تسلط سے۔”(مسلم)
آپ نرم خو ہیں یا صلح جو، مگر اتنے مضبوط نہیں کہ آپ کو جھکا دیا جائے تو آپ اف بھی نہ کریں۔ درست ہے، ایسا ہونا چاہئیے کہ آپ برائی کو محسوس کریں، ضمیر احتجاج کرے اور آپ خود کبھی اس برائی میں ملوث نہ ہوں۔ یہی جیت ہے اچھائی کی۔ سورہ عمران میں آتا ہے۔
(اے پیغمبرﷺ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو۔ یعنی انعام کی جلد امید ہمیں مایوس کرتی اور بدمزاج بناتی ہے ورنہ اچھائی کی ترویج کی خواہش ہمیں مضبوط بناتی ہے۔ پھر ہم لوگوں کی اسمارٹنیس کے نام پر حق تلفی کرنے کو نظر انداز کر دیں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ صلح جوئی کبھی جھکاتی نہیں بلکہ خیر ہی لاتی اور اقبال بلند کرتی ہے۔ صلح حدیبیہ، دنیا کہ سب سے زیادہ صلح جو بندے نے کی،جو فتح مبین ثابت یوئی۔ لہذا،آپ جو کوئی بھی ہیں اور جس حیثیت میں بھی ہیں،نرم خوئی، بردباری اور صلح جوئی کو کمزوری نہ سمجھیں، یہ آپ کو مضبوط ہی بناتی ہیں گر صحیح شعور سے اپنائی جائیں۔تا ہم نرم خو ہونے کے باوجود “لا اعبد ما تعبدون” کہنے کا حوصلہ پیدا کیجئے،بردباری کے باوجود غلط کو غلط کہنے کی جرات پیدا کیجئے،صلح جو ہونے کے باوجود “صلح حدیبیہ” سی صلح کیا کیجئے۔ اللہ ہمیں منتقم مزاج اور جارح سے بچائے اور لوگوں کے غلبہ سے محفوظ رکھے۔اٰمین