پاکستان جب بھی ترقی کی راہ پر چلا پاکستان کے دشمنوں نے پاکستانی قوم کو لڑانے کی کوشش کی، ہمارے دشمنوں نے ہمارے ہی لوگوں کو استعمال کرکے ہماری معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، ہمارے سیاسی لیڈران ہمیشہ نعرے اور لارے دے کر حکومت میں آئے اور لوگوں کو آپس میں لڑوا کر اپنی سیاست چمکائی، پاکستان کی عوام نہایت ہی جذباتی ہے اور ہمیشہ اُن کے جذبات اور معصومیت کا لیڈران نے فائدہ اُٹھایا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے اپنی فوج کی وجہ سے محفوظ رہا، کیونکہ ہماری مسلح افواج نے ہمیشہ سے جب بھی ملک اور قوم کے اوپر مصیبت آئی بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں، پاکستان کی ترقی کا وہ دور جسے ہم سنہرا دور کہتے ہیں وہ 1960سے 1970کا تھا جب پاکستانی فوج اس ملک کے لئے بے تحاشہ کام کررہی تھی تاکہ معیشت بہتر ہو اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جو ڈیم بنے وہ 1960اور 1970کے درمیان بنے، 1960سے 1970 تک پاکستان کی صنعتیں ترقی کرتی ہوئی نظر آئیں اور پاکستان کی معیشت اس حد تک بہتر ہونے لگی کہ دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر تھیں۔
1970کے بعد سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور دشمنوں نے پاکستانی عوام کو پاکستانی فوج کے خلاف کرنے کا پروپیگنڈا شروع کردیا تاکہ فوج کو کمزور کیا جاسکے، مگر اُن کے یہ ناپاک ارادے پورے نہ ہوئے اور پاکستان سیاسی طور پر چلتا رہا مگر جب بھی کسی سیاستدان نے پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کی تو باہر کے ممالک نے مختلف رکاوٹیں پیدا کیں، دشمن اب یہ سمجھ چکا تھا کہ پاکستان کی ترقی کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں آپس میں لڑایا جائے۔
اُس دوران شیعہ سنی فسادات کرائے گئے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے جان کے دشمن بنیں، خونریزی ہو اور ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے اور نہ ہی ملک میں انویسٹمنٹ آئے، کیونکہ جب بھی کسی ملک میں فسادات ہوتے ہیں تو اُس ملک کی معیشت تباہ ہونے لگتی ہے، اس مذہبی فرقہ واریت کی جنگ کو ہماری فوج کی مدد سے روکا گیا اور فوج نے ایک ہی نعرہ لگایا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اس مسئلے کے ختم ہونے کے بعد دشمنوں نے پاکستان میں سندھی اور پنجابیوں کے درمیان جھگڑے کروائے جس کی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسے پروجیکٹ روک دیئے گئے۔
سندھی اور پنجابی کے اس فرق کو جب ختم کیا گیا تو ایک نیا نعرہ پاکستان کے امن و امان کو خراب کرنے کے لگایا گیا جو مہاجر کا نعرہ تھا، ان تمام نعروں کی وجہ سے نفرتیں پیدا ہونے لگیں اور ایک صوبہ دوسرے صوبے کے ساتھ سوتیلے بھائیوں جیسا سلوک رواں رکھنے لگا۔ اسی دوران دشمنوں نے فائدہ اُٹھایا اور صوبوں میں فسادات ہونے لگے، عوام اور صنعت کار پریشان تھے، کبھی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، کبھی بوری بند لاشیں، کبھی بھتے کی پرچیاں کراچی جیسے صنعتی شہر کے اندر شروع ہوگئیں۔
تعصب پسندی نے سیاست میں جنم لیا، تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے، عوام پریشان ہوکر صرف فوج سے اُمید لگائے بیٹھی تھی تاکہ امن و امان کی بہتر صورت پیدا ہو اور کراچی جیسے شہر میں لوگ سکون سے زندگی بسر کرسکیں اور کاروبار پر توجہ دے سکیں، آخر کار فوج ہی سندھ کے لوگوں کی مدد کے لئے آئی اور تمام تخریب کاروں کو ختم کرکے سندھ کو امن کا گہوارہ بنایا،جس کے باعث آج کراچی سے لے کر روہڑی تک لوگ سکون سے کاروبار کررہے ہیں اور مہاجر قومی موومنٹ کانام ختم کرکے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔
اس کے بعد ہمارے دشمن پاکستان میں مذہبی انتہا پسند کے طور پر نظر آئے اور مختلف صوبوں میں بم دھماکوں کا آغاز ہوگیا، تخریب کاروں نے ملک کے چاروں صوبوں کا امن خراب کردیا تھا، یہاں تک کہ مساجد بھی محفوظ نہیں تھیں، لوگ مساجد میں جاتے ہوئے گھبراتے تھے، کیونکہ آئے دن مساجد میں اور عوامی مقامات پر بم نصب کئے جاتے تھے جس کے باعث پاکستان کے معصوم عوام کی قیمتی جانیں ضائع ہوتی تھیں، ایسے حالات میں ایک بار پھر پاکستانی افواج چاروں صوبوں کے اندر کام کرنے لگیں اور ان تخریب کاروں کو اس ملک سے باہر نکال دیا گیا اور سرحدوں کو وائر لگا کر دشمنوں کے راستے بند کردیئے گئے۔
اس کے بعد قدرتی آفات نے ملک کو آگھیرا، جب بالاکوٹ جیسا واقعہ رونما ہوا جہاں بہت سے لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، اس زلزلے میں بھی پاک فوج کو بالا کوٹ کے علاقے میں معصوم پاکستانیوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا گیا اور ان کے گھروں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا، پاج فوج صرف زلزلوں میں ہی نہیں بلکہ حالیہ سیلاب میں بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر اپنی قوم کی مدد کی اور اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی جانیں بچائیں، دشمن پریشان تھا اور سازش کرنے کے لئے کوئی چال بنا رہا تھا، وہ چال جو کسی سیاست دان کے ذریعے کھیلی جائے اور عوام کو گمراہ کرکے اُسی کے اداروں کے خلاف کیا جائے۔
یہ مہم چلی اور اداروں کو سیاست دانوں نے سیاست کے اندر گھسیٹنے کی کوشش کی، فوج ہمیشہ سے سیاست سے دور رہنا چاہتی تھی اور ہے، مگر جب سیاست اپنے مفادات اور اپنے اختیار کے لئے کام کرنے لگتے ہیں تو فوج کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں، ذرا سوچئے، تاریخ اُٹھا کر دیکھئے، کہ پاکستان کی ترقی میں 1947سے لے کر آج تک کس نے اہم کردار ادا کیا، آج اگر ہم سڑکوں پر آئیں گے تو معصوم لوگوں کو لڑوایا جائے گا اور ہمارے دشمن ہوسکتا ہے ہمارے کسی سیاستدان کا قتل کریں تاکہ ملک میں فسادات ہوں اور ملک معاشی طور پر تباہ ہوجائے۔
ہوسکتا ہے کہ عوام کو اداروں کے خلاف کیا جائے تاکہ معصوم عوام کو اداروں سے لڑایا جائے اور ملک کمزور ہو، اگر آپ ملک سے محبت کرتے ہیں تو اپنے اداروں کی قربانیوں اور محبت کی قدر کریں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہمیں نہ صرف دشمنوں سے محفوظ رکھا ہے بلکہ سرحدوں پر اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہمارے ملک کو محفوظ کیا، اگر سیاستدان چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے تو اداروں پر تنقید کرنا بند کریں اور ملک اور ملک کے عوام کے لئے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بات کریں۔
آج پاکستان میں سیاستدانوں نے ایک ایسی جگہ پر عوام کو لا کھڑا کیا ہے جہاں عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے صرف یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان کے مستقبل کے لئے آپ لڑیں مگر پاکستان کا مستقبل آپس میں لڑنے سے بہتر نہیں ہوتا، کیا وہ گھر ترقی کرسکتا ہے جہاں بھائی بہن آپس میں لڑتے ہوں اور ماں باپ کی عزت نہ ہو، ہرگز نہیں، یہ ملک ایک گھر کی طرح ہے، اس میں محبت کا چراغ روشن کریں اور ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے ترقی کے لئے کام کریں۔