اگر قوم ورلڈ کپ کے حصار سے نکل گئی ہو تو کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنی تھی۔ ورلڈکپ جیتنے والوں کو 42 کروڑ، اور ہارنے والوں کو 21 کروڑ اور اس 21 کروڑ کو 18 کھلاڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر کھیلنے اور نہ کھیلنے والے یعنی پویلین میں بیٹھے رہنے والے سمیت ڈیڑھ کروڑ سے کچھ زائد رقم ہاتھ آئے گی۔ یعنی جو کیچ ڈراپ کر ے۔ زیرو پر آؤٹ ہو، چوکا لگوا دے، اگر مگر کی ریل پر بیٹھ کر فائنل میں پہنچے اور وہاں بھی قدرت کے دیے ہوئے موقعے کو ضائع کردے۔ اس کھلاڑی کو یہ رقم ملے اور شہرت الگ سے ہو، چاہنے والوں کا ہجوم بھی ہو، یہ ایک عام نوجوان کے لیے کھیل میں دلچسپی پیدا کرنے کا زبردست محرک ہے جس سے وہ کتاب کو ایک فالتو شے سمجھے گا، اسے ترقی کے راستے میں رکاوٹ جانے گا اور اسے اس پڑھائی کے زریعے کمانے کا لمبا اور کٹھن راستہ دکھائی دے گا جس کے راستے میں پاکستان جیسے ملک میں رشوت، شفارش، میرٹ، انٹری ٹیسٹ اور بے پناہ تعلیمی اخراجات بھی رکاوٹ ہوں۔
پیسہ کھیلوں پر لگنا ہی چاہیے اور یہ بھی سچ ہے کہ صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہونا چاہیے، مگر اس مقولے کے مطابق دونوں باتوں میں توازن ہونا چاہیے، پیسہ جس طرح ایک کھلاڑی کے لیے کھیلنے کا محرک ہے اسی طرح طالب علم کے لیے علم سیکھنے کا محرک بھی ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں میں محض اسکولز کی سطح تک مفت تعلیم یعنی بیس روپے فیس ہے۔ جو مفت کتابیں دی جاتی ہیں وہ انگلش سلیبس میں ہیں اور بہت کم بچے میٹرک کی سطح پر انگلش نصاب پڑھتے ہیں، اکثریت تو اردو نصاب ہی پڑھتی ہے، ان بچوں کو یہ کتابیں خریدنی پڑتی ہیں اور انگلش نصاب کی سب کتابیں ضائع ہی ہوتی ہیں۔
یہی حال پریکٹیکل کاپیز کا بھی ہے۔ بچوں کو گریڈ لینے اور پاس کروانے کے چکر میں انکو محض رٹا ہی لگوایا جاتا ہے۔ علم انکے پاس رتی برابر نہیں ہوتا، بہت کم ادارے ایسے ہیں جو بچوں کی علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ سب رٹو طوطے آگے بھی نہیں جا پاتے۔ انٹری ٹیسٹ میں بھی گھپلے سنے گئے ہیں۔ نتیجتاً لاکھوں بچے برائے نام تعلیم مکمل کر کے بے روزگاری کے گہرے سمندر میں اترتے جاتے ہیں۔ اور انکے مسقبل کا سنہرا خواب یا تو کرکٹ اور دیگر گیمز کے زریعے پیسہ کمانا ہے یا زمینیں بیچ کر بیرونِ ملک جانا رہ جاتا ہے۔
تو عرض یہ ہے کہ تعلیم پر کھیل کی نسبت زیادہ توجہ دی جائے اور بجٹ میں پیسہ بھی ذیادہ لگایا جائے جس میں علمی و تحقیقی اعلیٰ اداروں بلخصوص ہنر سکھانے کے اداروں کا قیام شامل ہو، جہاں بچوں کو فری تعلیم دی جائے اگر یہ مشکل ہو تو کم سے کم اتنی فیس وصول کریں جو وہ آسانی سے ادا کر سکیں۔ اور جہاں بچے اپنی اہلیت و قابلیت کی بنا پر اپنا کیریئر منتخب کر سکیں اور نوکریاں تلاش کرنے اور بیرونِ ملک دھکے کھانے کی بجائے اپنے ملک میں ہی روزگار کا زریعہ تلاش کر سکیں۔ اور اسکی ترقی کے لیے کام کر سکیں اور با عزت طریقے سے روزی کما سکیں۔