اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فریقین کی کانفرنس جسے کاپ 27 بھی کہا جاتا ہے، حالیہ دنوں دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں رہی ہے۔اس اہم سرگرمی کے آغاز کے بعد سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر عالمی تعاون کا نکتہ نظر زور پکڑ رہا ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہوا جب دنیا مختلف قسم کے عالمی تنازعات سے دوچار ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران، کووڈ 19 وبائی صورتحال کی وجہ سے، بہت سے ممالک جیوپولیٹیکل تنازعات، توانائی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بڑھتی ہوئی افراط زر، اور بار بار شدید موسمی حالات کا شکار رہے ہیں. کچھ یورپی ممالک توانائی کی کمی کو جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے روایتی توانائی کے ذرائع جیسے کوئلے پر واپس آگئے ہیں۔ کچھ ممالک نے مالیاتی بحران سے شدید متاثر ہونے کے بعد، عارضی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو ایک جانب رکھ دیا ہے. دوسری جانب، موسمیاتی آفات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک مالی اور تکنیکی مدد کے لئے ترس رہے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک نے 2009 میں موسمیات کے حوالے سے مالی اعانت میں سالانہ 100 بلین امریکی ڈالر فراہم کرنے کے اپنے وعدے کو کبھی پورا نہیں کیا ہے۔
اس طرح کی چیلنجنگ عالمی صورتحال کے تناظر میں، عالمی ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے عمل میں ایک شراکت دار اور رہنما کے طور پر، چین ہمیشہ سبز ترقی کی راہ پر مصروف عمل رہا ہے، عملی اقدامات کے ایک وسیع سلسلے کے ذریعے ماحولیات کی عالمی گورننس کو بڑھانے میں فعال طور پر شریک ہے، حالیہ کاپ 27 کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات ایک اہم موضوع رہا ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد کی مشترکہ کوششوں کی بدولت موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات اوراس ضمن میں مالی اعانت کو اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس کی 30 سالہ تاریخ میں ایجنڈا آئٹم کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں کمزور اور متاثرہ ممالک کاپ 27 کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے معاوضے کا مطالبہ کرتے نظر آئے، وہاں ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے عالمی تعاون کے وعدے کر رکھے ہیں، محض کھوکھلے بیانات کی حد تک محدود رہے۔یہ صورتحال مایوس کن ہے کیونکہ ایک جانب امیر ممالک، غریب ممالک کو واجب الادا موسمیاتی قرضہ جات کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں تو دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کو بھی لاپرواہی سے دوبارہ کھولا جا رہا ہے، جو کاربن اخراج کو کم کرنے میں عالمی پیشرفت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اس طرح کے رجعت پسندانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل، ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے مزید خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ کاپ 27 کے مرکزی نعرے کے طور پر ”عمل درآمد کے لئے ایک ساتھ” ترقی پذیر ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ ہے کہ بلند اور مضبوط اجتماعی آواز کے ساتھ عمل کیا جائے۔موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلی سے منصفانہ اور شفاف” طور پر نمٹا جائے۔
ایک ذمہ دار ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے، چین نہ صرف کاپ 27 میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہے، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے عالمی موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں بھی اپنا حتی الامکان کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور قابل تجدید منتقلی کے حصول میں متاثر کن پیش رفت کی ہے. 2012 سے 2021 تک، چین نے توانائی کی کھپت میں 3 فیصد کے سالانہ اضافے کے ساتھ 6.6 فیصد کی اوسط اقتصادی ترقی کو برقرار رکھا. جی ڈی پی کے فی یونٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 34.4 فیصد کمی واقع ہوئی، اور جی
ڈی پی کے فی یونٹ توانائی کی کھپت میں 26.4 فیصد کمی واقع ہوئی، جو 1.4 بلین ٹن معیاری کوئلے کی بچت کے برابر ہے۔ چین نے کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے لئے ایک ٹائم ٹیبل اور روڈ میپ بھی تیار کیا ہے، اور پن بجلی، ہوا سے بجلی اور شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافے کے ساتھ توانائی کی تبدیلی کو مستقل طور پر فروغ دیا ہے۔ آج چین نئی توانائی کی گاڑیوں کا ایک بڑا پروڈیوسر اور خریدار بن چکا ہے اور اُس کی جانب سے دنیا کی سب سے بڑی کاربن مارکیٹ قائم کی گئی ہے، جو یورپی یونین کے مقابلے میں تین گنا بڑی ہے.یہی وجہ ہے کہ کاپ 27 میں چینی وفد کے ساتھ بات چیت کے دوران، اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے بھی چین کی تیز رفتار سبز تبدیلی اور عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کی ترقی میں کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چین تمام فریقین کے ساتھ رابطے اور ہم آہنگی کو مضبوط بنائے گا اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی ردعمل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ وسیع تناظر میں چین کی ماحول دوست کاوشیں اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عملی اقدامات دنیا کے لیے بھی ایک ”امید کا پیغام” ہے، جو نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ سیکھتے ہوئے لازمی عملی لائحہ عمل کا متقاضی ہے۔