ملک کے معاشی و سیاسی بحران کے تناظر میں موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف (COAS) جنرل قمر جاوید باجوہ کے 29 نومبر 2022ء کی رخصتی اور نئے سپہ سالار کی تقرری پی ڈی ایم حکومت کو درپیش چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاندانہ و جارحانہ رویہ اور اب توشہ خانہ مسٹری نے یہ اندازہ لگانا مشکل بنا دیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد کیا یہ جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گا یا پھر تنازعات کا نیا دور شروع ہو جائے گا۔
جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے جارہی ہے اور نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کا وقت آگیا ہے، شاید سب سے اہم فیصلہ شہباز شریف اپنی مدت کے دوران کریں گے، جو اس ماہ کے آخر میں ہونے والا ہے۔ لانگ مارچ کے مظاہرین سے خطاب میں، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر آرمی چیف کی توسیع کے لیے اصرار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ پی ایم ایل این ممکنہ طور پر پی ٹی آئی مخالف آرمی چیف کا تقرر کرکے ان کی پارٹی کو سبوتاژ کر سکتی ہے جبکہ یہ قیاس آرائیاں گردش کرتی رہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف یہ اہم فیصلہ کر چکے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست بند گلی میں پھنس گئی ہے۔ معمول کی سیاسی بات چیت تنازعات میں بدل جاتی ہے اور ہر فریق اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ جب سیاست دان اپنے پالیسی اہداف تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں، تو وہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تھیٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ نتیجتاً لامتناہی الزامات کا سلسلہ کا رد عمل قوم و ملک دونوں کیلئے خطرناک ہے۔ الزام تراشی کی سیاست وہ ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عمران خان نے موجودہ وزیراعظم کو بدنام کرنے کے لیے یہ حربے اختیار کیے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف دانشمندی کی بات ہو گی کہ وہ صرف سینئر ترین جنرل کو چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے چنیں گے جس کے بعد عمران خان کے پاس انتخاب کی مخالفت کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہوگی۔
چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر پرویز مشرف کے آخری سال سے سی او اے ایس کی تقرری کا معاملہ پاکستانی سیاست کا مرکز بن چکا ہے۔ اسے پاکستان تحریک انصاف کی ملکی سلامتی کے ادروں کے شرع مذموم مہم نے متنازعہ بنا دیا ہے ۔حالانکہ دنیا بھر میں اعلیٰ عسکری قیادت کا انتخاب ایک معمول کی بات ہے۔ اپنے پڑوسی بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سربراہ پی ٹی آئی اپنے خطابات میں بھارتی خارجہ و حکومتی پالیسیوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے نظر آئے ، انہیں یہ بھی بخوبی معلوم ہو گا کہ وہاں پر فوج کے ادارے کو یوں سڑکوں پر نہیں گھسیٹا جاتا۔ ماضی ہمیں دکھاتا ہے کہ ایسے لمحات میں، فوج ایک کم نظر آنے والے سیاسی کردار کا انتخاب کرتی ہے لیکن، جنرل قمر جاوید باجوہ کا جانشین شاید اتنا آسان نہیں ہے۔
کیا نئے آرمی چیف کو مزید مستحکم حکومت کی ضرورت کا ادراک ہوگا جو آنے والے الیکشن پر نظر رکھ کر معاشی فیصلے کرنے والے غیر متزلزل اتحاد کو جاری رکھنے کے بجائے طویل المدتی فیصلے لے سکے؟ اور، اس کے ساتھ، فوج کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بدامنی کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کا تعلق ادارے کے خلاف بڑھتی ہوئی مذمت سے ہے۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں جو نئے آرمی چیف کو حل کرنے ہوں گے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور اقتدار کی دوڑ نے ملک کو سیاسی فلیش پوائنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور یہ عام پاکستانیوں کے مسائل کو حل نہیں کرتا، جو ملک کے سیاسی عدم استحکام کی مسلسل قیمت چکا رہے ہیں۔
حیرت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے امریکی حکومت کے بارے میں اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے تعلقات بڑھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس سے پہلے خان نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ میں پاکستان کے ساتھ کام کرنے والے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز امریکی اہلکار ڈونلڈ یو ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ایک منظم سازش میں ملوث تھے۔جس کو تحریک عدم اعتماد کو اس سازش کا ذمہ دار ٹھہرایا جس نے انہیں اقتدار سے ہٹایا۔ یقیناً ہمارے سپہ سالارجنرل قمر باجوہ کے الوداعی دوروں سے ان کی توسیع کے حوالے سے قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ بلاشبہ افواہوں کاسلسلہ ایک خاص مقصد کے تحت پھیلایا گیا تھا تاکہ عوام میں کنفیوژن پیدا کی جائے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کی تھی۔ جب عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے دور وزارت میں توسیع دی تھی یعنی اس وقت نواز شریف کے فیصلے سے متفق تھے ۔ 7 اپریل تک تو عمران خان کے بقول دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ اب دور اندیشی یہی ہے کہ سنیارٹی کے مطابق اس ملکی و قومی اہم ترین اعلیٰ عسکری عہدے پر تقرری عمل میں لائی جائے، جس سے یقیناً ناقدین و سیاسی مخالفین کے منہ بھی بند ہو جائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ بحرانی منظر نامے میں ملک دشمن عناصر اس کو متنازع بنانے کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ اس لئے ہماری سیاسی قیادت اور سیاسی رہنمائوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ا ہم قومی ایشو پر مفادات سے بالاتر کر ہو کر ملکی سالمیت کو مقدم رکھیں۔ واضح رہے کہ دشمن ہماری تاک میں ہے وہ ہمای صفوں میں گھس کر ہمیں بحیثیت قوم ناکام کرنا چاہتا ہے اور یہ ہماری لیڈر شپ پر لازم ہے کہ و ہ بیرونی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں وگرنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔