اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے۔
بچوں کا عالمی دن سب سے پہلے 1954 میں منایا گیا۔ ہر سال 20 نومبر کو یہ دن منایا جاتا ہے تاکہ عالمی طور پر باہمی یکجہتی کو فروغ دینے، دنیا بھر میں بچوں کی بہتری کی آگاہی کے لیے منایا جاتا ہے یہ دن 20 نومبر کو اس لیے بھی منایا جاتا ہے کہ 20 نومبر 1959 کو اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور کیا تھا۔ اس کے علاوہ 20 نومبر 1989 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کو اپنایا تھا۔ اس دن کو اہم اور فعال بنانے کے لیے والدین اساتذہ علماء ڈاکٹر، سیاسی و سماجی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما اور کارکن اس کے علاوہ بچے خود اور خصوصا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس دن کے ذریعے یہ آگاہی دی جاتی ہے کہ انسانی حقوق صرف بڑوں کیلئے نہیں بچے بھی برابر کے حقدار ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق تعلیم، صحت اور کھیل کے مواقع فراہم کیے جائیں، اس کے علاوہ خاندانی زندگی ان کا حق ہے، تشدد سے محفوظ ماحول اور آزادی اظہار کا حق بھی شامل ہے بچوں کو بدقسمتی سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس میں ایک مسئلہ ان کے حقوق کا ان سے جڑے لوگوں کو آگاہی نہ ہونا۔ تعلیم ان کا حق ہے صرف اسکول بھیجنا کافی نہیں والدین کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ بچے تقریری طریقے کی بجائے عملی طریقے سے جلدی سیکھ جاتے ہیں۔
ہمارے دوست اور بڑے بھائی ماہر تعلیم پروفیسر فیصل جنجوعہ پرنسپل ایفا اسکول کے کالم بچوں کے دوست سے ایک سنہری جملہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ اکثر سادہ اور کم فہم والدین شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ میرابچہ تو ایسا نہیں تھا اس کے دوستوں نے خراب کردیا تو سر فرماتے ہیں کہ آپ خود اپنے بچے کے دوست بن جائیں اور اسے اچھا ماحول فراہم کریں، بچوں کے اور بہت سے مسائل ہیں جیسا کہ بچوں کو تعصب کا شکار کیا جاتا ہے جس سے وہ اپنی خوداعتمادی کھو دیتے ہیں بچوں سے مشقت اہم مسئلہ ہے جو بچے پڑھ نہیں پاتے انہں کاموں پر لگا دیا جاتا ہے اس وقت ایک تو نہ وہ جسمانی بلکہ ذہنی طور پربھی اس کے لئے تیارنہیں ہوتے۔ سونے پہ سہاگا جو ماحول وہاں ملتا ہے جس تذلیل سے گزرنا پڑتا ہے اس کے بعد وہ کبھی معاشرے کے اچھے اور مفید شہری نہیں بن پاتے۔ شہروں میں مثبت سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث نت نئے نشے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی کر کے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں سگریٹ کو ہماری نوجوان نسل نشہ ہی نہیں سمجھتی بلکہ یہ تو اب فیشن سمجھا جاتا ہے۔لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی نشے کا شکار ہو رہی ہیں۔
ہم سب کو عادت پڑ چکی ہے اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے اور سب کچھ حکومت کے گلے ڈال دینے کی۔ اگر اب بھی ہم لوگ نہ جاگے اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا تو ہماری آئندہ نسل مکمل برباد ہو جائے گی، ہم جس دین کو مانتے ہیں وہ ایک دین فطرت اور مکمل دین ہے۔ ہر مسئلے پر قرآن وسنت رہنمائی فراہم کرتے ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بہتر ماحول دیں۔ ابتدا ہی سے اپنے دین کی طرف خود بھی اور اپنے بچوں کو راغب کریں خود بچوں کے لئے مشعل راہ بنے اور جن بچوں کا کوئی سہارا نہیں ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ آپ آج جو بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے۔ یاد رکھیں جو آج بچہ ہے کل نہیں ہوگا ان سے کل جوسلوک آپ چاہتے ہیں وہی آج ان معصوموں کے ساتھ کیجے۔ یہ ہی بچوں کے عالمی دن کا پیغام ہے۔