کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جو غلط اور صحیح میں تمیز رکھتے ہیں، اتنی اخلاقی جرات تو بہت ہی کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ مخالفت، محاذ آرائی کی فضاء میں غلط کو غلط کہہ سکیں اور ایسے لوگوں کا تناسب تو نہ ہونے کے برابر ہے جو ہر غلط ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں ہلکان ہوتے رہنے کی بجائے جمپ کرنے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔
کیا ضروری ہے کہ ماحول آپ کے نظریات کے مطابق نہیں ہے، آپ کے تخیلات کو پنپنے کا موقع جہاں نہیں مل رہا، پھر بھی آپ اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی راہیں ہی تلاشتے رہیں، آپ بلند پروازی کے مواقع ڈھونڈھنے کی بجائے ایڈجسمنٹ کے نام پر پر کاٹ دینے پر کیوں تل جاتے ہیں؟جانتے ہیں نبی مہرباں ﷺ نے مکہ کی محبوب سر زمین سے ہجرت کیوں کی؟ مواقع تلاشتے ہوئے طائف میں لہو لہان ہونے پر بھی پچھتائے نہیں کہ میں ادھر آیا ہی کیوں؟ حبشہ کو عیسائی اقتدار کے باوجود پسند کیوں کیا؟ کیونکہ آپ صہ کو اپنے نظریے سے عشق تھا، اپنے نظریات کی سربلندی کی طلب تھی، ایڈجسٹمنٹ یا مفاہمت کے نام پر باطل کا ممتاز مقام قبول کرنا گوارا نہ تھا، باطل کے تحت وقتی طور پر رہنا گوارا کیا تو وہاں۔ جہاں نظریات کو کچل دینے کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے حق کے واسطے نرم گوشہ پایا۔
ضروری ہے کہ مومن جہاں بھی پایا جائے ممتاز حیثیت برقرار رکھے، قوی مومن کو اسی لئے پسند کیا گیا ہے نا کہ وہ غلط ماحول میں ایڈجسٹ ہو جانے کی بجائے مضبوط قوت فیصلہ کی بدولت جمپ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موسیٰ کا غلامی کے ستائے بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات نکل جانا مضبوط فیصلے ہی کی مثال ہے، یہ درست وقت پر فیصلہ کرنا اور نافذ کروانے ہی کی صلاحیت تھی کہ حضرت آسیہ نے فرعون کے محل میں موسیٰ کی پرورش کا ذمہ لیا اور دشمن حق ہی سے فیصلے پر عملدرآمد کروایا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہم حق پر ہونے کے باوجود بے نام جھجھک میں مبتلاء رہتے ہیں، غلط بات ہمارے سامنے ہوتی ہے مگر ہم لحاظ کے نام پر زبان کو ہلنے کا موقع نہیں دیتے، غلط ماحول میں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اپنی شخصیت کو دبا دیتے ہیں،اپنی خواہشات کا، جذبات کا گلا گھونٹنے رہتے ہیں، بلا وجہ اپنے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں، غلط افراد غلط کاری کے باوجود غالب رہتے ہیں۔ ایسی ہر جگہ، ماحول، فرد سے دبنے، اپنی شخصیت کو مدغم کر دینے اور مفادات سے چمٹے رہنے کی بجائے سٹینڈ لیجئے، لیڈر شپ قبول کرنا مومن کی سرشت نہیں اگر نظریات میں ٹکراؤ ہو تو،بلکہ لیڈر بننا مومن کا خاصہ ہے۔
آپ۔ جو بھی ہیں،جس حیثیت میں بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں۔ اگر حق پر ہیں تو دباؤ قبول نہ کیجئے،ڈریے نہیں، جھجھکیے نہیں،احد احد کہنا سیکھ لیجئے، نیک کے کاموں میں دست وبازو بنئے اور شخصیت پرستی اور خود پسندی کے زہر سے دامن چھڑا لیجئے، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاون مت بنئے چاہے اس کے لئے جتنا بھی دباؤ اور مخالفت کا سنا کرنا پڑے۔ غلط فیصلے، آباء کی اندھی تقلید اور غلط طرز عمل پر چپ سادھے رہنے کی بجائے فیصلے لینا اور نافذ کرنا سیکھئے اور نافذ کیجئے۔ جب آپ ایک چھوٹے سے معاملے میں بھی فیصلہ لینا اور نافذ کروانے کا گر سیکھ جاتے ہیں تو گویا امامت کے منصب اور امت کی قیادت کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں بحیثیت فرد، داعی، لیڈر “حکم” سے نوازے. آمین