نوجوان کسی بھی ملک وملت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان پاکستان کے روشن اور تابندہ مستقبل کی نوید ہیں۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہی کمند
وہ بلند و بالا برفانی چوٹیاں سر کرتے ہیں۔ سماجی میداں ہو یا تعلیمی۔ یا کھیلوں کے میدان، ہرجگہ اپنی ذہانت، محنت، قابلیت کا لوہا منواتے پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں آمریکا میں ہونے والے “انٹرنیشنل سائنس اینڈ انجینئرنگ فیئر” میں پاکستان کے طلباء نے دس بہترین پراجیکٹ پیش کئے۔ اس عالمی میلے میں پوری دنیا سے 1700طلباء حصہ لیتے ہیں
کراچی کے طالب علم علی قاسم نے سی اے کے امتحان میں 170 ممالک کے طلباء میں 96 فیصد نمبر حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ غرضیکہ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا طب و تحقیق کا شعبہ۔ پاکستان کے طلباء دنیا میں کارہائے نمایاں سر انجام دیتے پاکستان کا سر فخر سے بلند کررہے ہیں ۔
اس ضمن میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ۔ ہمارا میڈیا اور حکومت سیاست، کھیل، ارٹ، شوبز کی نمایاں کوریج، اور سرپرستی کرتے ہیں مگر سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق میں شاندار کارکردگی پیش کرنے والے معماروں کو سرپرستی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگر ان کی صلاحیتوں کو حکومتی سطح پر پذیرائی، استفادہ کیا جائے۔ تو پاکستان دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی تقریبا 70 فیصد ابادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں۔تو ہمارے نوجوان گو ناں گو مسائل کا شکار ہیں۔ انکے بہتر مستقبل کے لئے،انکی صلاحیتوں کو نکھارنے ،انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے۔۔ملک و قوم کے لئے کار آمد بنانے کے لئے کوئ مثبت پالیسی نہی بنائی گئی۔ تعلیمی نظام کی زبوں حالی اور اداروں میں بڑھتی کرپشن نے نوجوانوں کو نئے مسائل سے دوچار کیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے سب سے ذیادہ تعلیمی نظام پر زور دیا تھا۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیمی نظام میں اپنی تہذیب و تشخص سے نا آشنا، مادیت پرست، ہوس کے پجاری، مغربی ملغوبہ جات سے مزین و متاثرین کی کھیپ تیار کی جارہی ہے۔
ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم، اور ہماری قومی زبان اردو میں ہونا چاہئے۔ انگریزی اور انگریزوں کے غلاموں کو فوقیت دینے اور اپر، ہائی کلاس، مڈل کلاس۔ معاشرے سے طبقاتی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے، تعلیمی نصاب میں نبی ﷺ۔ سیرت اور قرآن کا ترجمہ لازمی شامل کیا جانا ضروری ہے۔
بقول علامہ اقبال
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر،
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہمارے نوجوان کو اقبال کے تصور خودی، افکار و انقلابی نظریات سےدور کرکے۔ حلال و حرام کی تمیز سے عاری۔ بلند معیار ذندگی کی دوڑ میں مصروف عمل۔ اپنے منصب و مقصد سے دور کردیا گیا ہے۔
بقول علامہ اقبال۔
میرا طریق امیری نہیں، غریبی ہے،
خودی نہ بیچ، فقیری میں نام پیدا کر۔
ملکی ترقی امن و استحکام میں نوجوانوں کا کردار اہم ہے۔ پاکستان کی بقاء و سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔ قومی ادارے پالیسی مرتب کریں۔ والدین، اساتذہ، علماء، دانش ور حضرات اپنی زمہ داری احسن طریقہ سے انجام دیں۔ نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی، تربیت کریں۔ نوجوانوں کو انکے اسلاف و اقدار سے روشناس کرائیں۔ اور نوجوان علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے استفادہ کریں تو ہمارے نوجوان ملک پر ظلم وجبر اور غلامی کا نظام مسلط کرنے والی خون آشام طاقتوں کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہوں گے۔
ملک دشمن، مفادپرست۔ عناصر نوجوانوں کو منقسم، منتشر کرکےلسانی، مسلکی، تعصبات، سیاسی منافرت میں الجھا کر باہم دست وگریباں رکھنا چاہتے ہیں۔ نوجوانو کو قومی وحدت کی کی لڑی میں پرو کر منظم کیا جائے۔تاکہ وہ اپنی توانائیوں کو ملکی استحکام،ترقی کے لئے سرف کریں۔
قائد اعظم کے رہنما اصول،
ایمان، اتحاد، یقین محکم
کو اپنا کر ہی نوجوان دنیاوی و اخروی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم،
جہاد زندگانی میں یہ ہیں،مردوں کی شمشیریں۔