امتحان میں نوٹس، بوٹی کلچر، نقل سر عام ہوتی دیکھ کر ایماندار اور محنت پر یقین رکھنے والے طالب علموں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خصوصاً وہ طالب علم جو ایماندار تو ہو لیکن زیادہ محنتی نہ ہو۔ حشر کو مگر جس امتحان کا نتیجہ سنایا جائے گا اس کے لئے کی بک(سفارش)اور رشوت(فدیہ) پر یقین رکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ کی بنائی گئی یہ امتحان گاہ(دنیا) انسانی کمرہ امتحان کے برعکس ہر قسم کے سقم سے خالی ہے۔ بے شک اس کی کاریگری نقص سے پاک ہے۔ اللہ بے انصاف ہے نہ ہی بشری صفات رکھتا ہے کہ اپنے بنائے گئے قوانین میں اس سے کسی بے اصولی کی توقع کی جا سکے۔
اللہ ہر گز محنت اور مستقل مزاج اور لگن سے ثمر حاصل کرنے والے کی ریاضتوں کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ اللہ پاک اور نا پاک کو یکساں نہیں ہونے دے گا۔ اللہ شارٹ کٹ سے جنت کمانے کی طمع رکھنے والوں اور ساری زندگی خدائی حدود کا لحاظ رکھنے والوں کو ایک ہی صلہ کیسے دے سکتا ہے؟ وہ۔ جس نے کم مگر حلال روزی کی خاطر کتنے ہی سنہرے موقعوں کو ٹھکرا دیا کہ آخرت کی فلاح اسے زیادہ عزیز تھی۔ کے برابر وہ کیسے ہو سکتا ہے جس نے اپنے مال بے تحاشہ راہ خدا میں خرچ کیا مگر مال کے تزکیے سے جسے محروم رکھا گیا۔ وہ۔ جس نے جوتی کے تسمے جیسی حقیر حاجت کے لئے بھی اللہ سے رجوع اور توکل پر یقین رکھا۔ کے برابر وہ کیسے ہو سکتا ہے جس نے ہر چھوٹی بڑی حاجت کے لئے اپنے جیسے انسانوں کو مختار کل سمجھا،انہیں سے امیدیں لگائیں کہ وہ بڑی رسائی رکھتے ہیں، ان کی بڑی اپروچ ہے،وہ مجھے ملازمت دلوا سکتا ہے، فلاں ڈاکٹر تک رسائی ہوتی تو میں اپنے پیارے کو بچا سکتا تھا، فلاں سے جس نے بھی مشورہ اور علاج کروایا صاحب اولاد ہو گیا
ارے اللہ نے تو بتا کر بھیجا تھا کہ میں ہی رازق ہوں، شفاء میرے ہی در سے عنایت کی جاتی ہے جس کے لئے اور جس کے وسیلے سے عنایت کی جانی ہے وہ اللہ کا معاملہ ہے تو پھر اپنی مقدور بھر تدبیر کے بعد تقدیر پر شاکر کیوں نہیں اے ناداں ! تو ہر نعمت کے حصول کی خواہش رکھتا ہے تو یہ غلط نہیں، غلط یہ ہے کہ ہر نعمت کا اپنے آپ کو مستحق سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر کبھی انسانوں سے نالاں رہتا ہے اور انہیں مورد الزام ٹہھراتا ہے اور کبھی اللہ ہی سے مایوسی کی روش پر چل نکلتا ہے۔
یاد رکھئے کہ اس امتحان گاہ کے ضوابط کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ جو غلط ہتھکنڈوں سے اس امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرے گا کبھی جہد مسلسل پر یقین رکھنے والوں کی برابری کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے نیکی کی روش پر چلنے والوں کو اجنبی بن جانے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ نقل پر یقین رکھنے والے بھی جہد مسلسل پر یقین رکھنے والوں کے لئے امتحان کا حصہ ہیں۔ جیسے ایماندار طالب علم کم مگر دیانتداری سے کامیاب ہونے کی اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے اور اپنے ارد گرد سے بے نیاز رہتا ہے اسی طرح دنیا کے کمرہ امتحان میں داخل ایماندار طالب علم کا رویہ ہونا چاہیئے اگر وہ شارٹ کٹ سے متاثر ہو کر اپنی راہ کھوٹی کر لیتا ہے یا بددل ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو خود ہی خسارے میں ڈال لیتا ہے۔ اللہ ہمیں ایماندار طالب علم بنائے جو ممتحن کے صمد، قادر اور عادل ہونے پر کامل یقین رکھتا ہو۔ آمین