سابق وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا تھا کہ اگر مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں سب سے خطرناک ہو جائوں گا ۔ بلاشبہ حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے نزدیک ملکی سالمیت و قومی سلامتی کوئی معنی نہیں رکھتی انہیں صرف اقتدار عزیز ہے اور اس کے حصول کیلئے وہ آخری حد تک جا سکتے ہیں۔
ان کے جلسوں میں قومی سلامتی کے اداروں کیخلاف پروپیگنڈہ، سپہ سا لار پاک فوج پر رکیک حملے، آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی، گھیراؤ، جلاؤ پتھراؤ، انتشار، لانگ مارچ اورخونی انقلاب کا عندیہ یہ سب قومی سلامتی کیلئے زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ موجودہ گھمبیر ملکی سیاسی حلات کے تناظر میں ریاست اور معاشرے میں عدم رواداری، تحمل و بر دباری ، برداشت سب سے بڑامسئلہ بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی سر براہ اور The establishment کے مابین ٹکڑاؤ نے ملکی فضاء کو مکدر کر دیا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کے معاندانہ و جارحانہ رویئے نے ہمارے ازلی دشمن کا کام آسان بنا دیا ہے اوربھارتی میڈیا شادیانے بجا رہا ہے۔ جس کا اعتراف بھارتی ٹی وی چینلز پر بیٹھی عسکری قیادت نے بھی کیا جن کو عمران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
دیار غیر، یورپی ممالک میں پی ٹی آئی کے احتجاج میں بھارتی شہریوں کی شرکت نے اس معاملے کو اور بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ عمران خان کے تین بنیادی مطالابات میں فوری انتخابات کا اعلان، نگران سیٹ اپ کا قیام اور تیسرا سب سے اہم مطالبہ کو تسلیم کروانے کیلئے ملک کو آگ میں دھکیلا جا رہا ہے وہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ہے۔ جو ان کے مطابق نئی منتخب حکومت کرے گی۔ جبکہ ملک کی سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی سنگین واردات کی ایف آئی آر کا اندراج فوری طور پر عمل میں آجانا چاہیے تھا کیونکہ اس کے بغیر تحقیقات شروع نہیں ہوتی جبکہ تاخیر کی وجہ سے ثبوت و شواہد کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ تاہم یہ معاملہ پراسرار طور پر موخر ہوتا رہا یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے اس انتباہ کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس دوران ایک ممتازامریکی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں بھی عمران خان میزبان کی جانب سے بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کو جواب نہیں دے سکے کہ سازش میں ان افراد کے ملوث ہونے کا ان کے پاس ثبوت کیا ہے۔اس صورت میں ان افراد سے مستعفی ہونے کا جو مطالبہ عمران خان کررہے ہیں اسے تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی معاملے میں اعلیٰ حکومتی اور ریاستی عہدیداروں پر شک کا اظہار کرکے ان کا استعفیٰ لینے کا اہل قرار پائے گا کیونکہ آئین کی رو سے ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ لہٰذا تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے استعفوں کا یہ ناجائزمطالبہ سراسر غیر معقول دکھائی دیتا ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میںاتحادی حکومت کو متعدد انتہائی سخت قسم کے معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ نئے سی ای اے او کی تقرری کا فیصلہ یقینا ان کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 2016 ء میں تعینات چیف آف آرمی اسٹاف (COAS) جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر کے آخری ہفتے میں رخصت ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل باجوہ کو 2019 ء میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اگست میں مدت ملازمت میں توسیع دی تھی۔ تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے سروسز چیفس کی دوبارہ تقرری پر قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ پارلیمنٹ نے جنوری 2020 ء میں تعمیل کی، وزیر اعظم کو اپنی صوابدید پر سروسز چیفس کی مدت میں توسیع کرنے کی اجازت دی۔ تاہم قانون سازی میں 64 سال کی عمر مقرر کی گئی تھی جس میں ایک سروس چیف کو ریٹائر ہونا ضروری ہے۔ جنرل باجوہ، اب بھی 61، اس لیے ایک اور مدت کے لیے اہل ہو سکتے ہیں۔ اس تکنیکی صلاحیت نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ آنے والے کسی اور توسیع کے خواہاں یا دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن آرمی سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی تھی کہ وہ نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے بھی تصدیق کی کہ چیف واقعی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف کا واحد چار ستارہ عہدہ نہیں ہے جو نومبر میں خالی ہو جائے گا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) جنرل ندیم رضا بھی اسی وقت ریٹائر ہو جائیں گے۔ دو فور اسٹار جرنیلوں کی بیک وقت تقرری سے حکومت کو فوج کے لیے کمانڈر منتخب کرنے کے لیے تھوڑی سی جگہ مل جاتی ہے۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم پاکستان ملٹری اسٹبلشیمنت کی طرف سے تجویز کردہ چار ناموں میں انتخاب کے پابند ہوتا ہے۔ پاکستان کے آرٹیکل243 (3) کے مطابق صدر پاکستان سروسز چیف کی تعیناتی وزیر اعظم کی سفارش پر کرتا ہے۔ روایت کے تحت جی ایچ کیو سروس ریکارڈ کے ساتھ 4 یا 5 سینئر ترین جرینلوں کی فہرست وزارت دفاع کو بھیجتا ہے تاکہ ملک کی باوقار اور اہم تعیناتی عمل میں لائی جا سکے۔ عمران خان فوج کے ادارے پر تنقید اس لئے کررہے ہیں کہ وہ اپنے آئینی دائرے سے نکل کر ان کے حق میں غیرآئینی کردار ادا کرے۔ ماضی کی روایات کے برعکس نئے سی ای اے اوکے انتخاب کو عمران خان نے متنازعہ ترین بنا نے کے ساتھ ساتھ اسے تھڑے کاموضوع بحث بنا کرر کھ دیا ہے۔ حالانکہ 7 اپریل سے قبل بقول عمران خان کے ایک پیج پر تھے۔ بعدازاں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی مقبولیت کیلئے امریکی سازش کا بیانیہ رچا گیا اور جھوٹ، بد زبانی کا سہارا لیتے ہوئے قوم کوگمراہ کرتے ہوئے جعلی سائفر تک اپنے جلسوں میں لہرائے گئے۔
عساکر پاک کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا، میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل جیسے القابات سے نوازا گیا۔ ریاست مدینہ کے جھوٹے دعویدارکی جانب سے سپہ سالار کی تعیناتی پر ناقابل اعتراضات اٹھاتے ہوئے دراصل پوری ملٹری ہائی کمان کی حب الوطنی ، دیانتداری اورفرض شناسی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے بلکہ یہ مستقبل کی اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف سازش اور انہیں مزید تنازعات میں دھکیلنے کا ناپاک منصوبہ ہے۔ 972 1ء سے اب تک ملک کے دس آرمی چیفس میں سے پانچ کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم الگ الگ ادوار میں تعینات کیا تھا۔ پی ٹی آئی سر براہ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پر آرمی ہائی کمان کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی سربراہ کو فتنے کی سر کوبی کو منظر عام پر آنا پڑا۔ اصل میں عمران خان کے ایسے بیانات پاک فوج جیسے اعلیٰ و ارفع ادارے کیخلاف نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت و اشتعال اور بے زاری پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے ۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے off the cuff remarks’ ’آف دی کف ریمارکس‘‘ قومی و عسکری اداروں پر دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈوں کے سواکچھ نہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی فرسٹریشن، مایوسی اور گھبراہٹ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ دوسری جانب مقتدرہ سیاسی و فوجی حلقے لچک دکھانے کو تیار نہیں ،لانگ مارچ اور قاتلانہ حملے کے حوالے سے بھی انہیں پریشرائز کرنے میں ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی چئیرمین اہم قومی سلامتی اداروں میں خلفشار و دراڑ پیدا کرنے کی خام کوششیں پورے سیاسی و جمہوری عمل کو لپیٹنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ کیاانہوں نے جارحانہ رویہ، گالی گلوچ والا انداز صرف اس لئے اپنا یا گیا ہے کہ ان پر عائد غیر قانونی فارن فنڈنگ، توہین عدالت سمیت دیگر مقدمات سے قوم کی توجہ ہٹا دی جائے ۔