ہیں مجسم آپ رحمت محسن انسانیت
نبی رحمت بحثیت محسن انسانیت
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نور مجسم بن کر آئے۔فضا اہل توحید کے لئے اتنی مایوس کن اور گھٹن زدہ بن چکی تھی کہ عبیداللہ بن جحش،عثمان بن الحویرث،زید بن عمرو بن نفیل ،ورقہ بن نوفل اور جیسے نوجوان باوجود حق شناسی کے اور باوجود شرک سے بیزاری کے کوئی نشان راہ نہ پا سک رہے تھے۔ نتیجتا کوئی راہب بن گیا تو کسی نے شام جا کر عیسائیت اختیار کر لی۔مگر زید بن عمرو مرنے تک تلاش حق میں سرگرداں رہے مگر نبوت کا ظہور ابھی نہیں ہوا تھا۔ایسی فضاء جب کہ نگاہیں پیغمبر کی متلاشی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے نبی آخری الزماں کو معبوث فرمایا۔نیک فطرتوں نے اسے فوراً قبول کیا مگر قیادت،سرداری کو رذائل اخلاق کی نشاندھی اور قیادت سے برطرفی کے خوف نے یک جتھہ بنا دیا۔عرب نے اکٹھے ہو کر تو کبھی جتھوں کی صورت اس محسن کی راہیں روکنا چاہیں۔مگر وہ محسن انسانیت ہونے کے ساتھ ساتھ نبی رحمت بھی تھا۔اسی لئے محسن انسانیت کا جذبہ رحمت میدان جنگ میں بھی بدرجہ اتم ملتا ہے۔28 غزوات میں محض459 مسلمان شہید اور اتنے ہی کافر جہنم واصل ہوئےحالی نے نبی رحمت کے احسانات کا کیا خوب نقشہ کھینچا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
قرآن میں آتا ہے
و ما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین !
حضرت انس بن مالک رضہ کا بیان ہے کہ میں پورے دس سال رسول اکرم ﷺ کی خدمت کی۔ اس دوران حضوراکرم ﷺ نے کبھی بھی مجھے اف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم)
خود نبی ﷺ نے فرمایا !
میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو۔(مسلم)
یہ دیکھنے کے لئے کہ آنحضور ﷺ انسانیت کے کتنے بڑے محسن ہیں طائف کی وادی میں چشم تصور سے ملاحظہ کیجئے آپ ﷺ کے جذبہ رحمت کو جو ایسے دردناک اور اذیت دہ رویے پر بھی طائف پر عذاب کی تجویز کو رد کر دیتے ہیں کہ شاید کوئی نیک فطرت ان میں موجود ہو۔اسی لئے فرمایا گیا۔
یہ اللہ پاک کی خاص رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں۔(آل عمران)
جتنا آپ کو ستایا گیا،دھتکارا گیا مگر آپ ﷺ انہی ظالم،جاہل،ہٹ دھرم،بغص وعناد رکھنے والوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے کوشاں رہے,
(اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس کلامِ (ربّانی) پر ایمان نہ لائے ۔(القرآن)
معراج پر نمازوں کا تحفہ ملا تو جذبہ رحمت نے ہی انسانیت پر احسان کیا یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔اوائل میں جب بیعت لی جاتی تو صرف یہی عہد لیا جاتا کہ شرک نہ کریں گے،جھوٹ نہ بولیں گے،زنا نہ کریں گے چوری نہ کریں گے وغیرہ۔اسی طرح شراب کو حرام ٹھہرایا گیا یا پردے کو نافذ کیا گیا یا احکام روزی نازل ہوئے سب تدریجاً نافذ کیے گئے۔آپ ﷺ کو انسانیت کا ہلاکت میں پڑنا کسی طرح گوارا نہ تھا،آپ ﷺ ہر ممکن کوشش کرتے کہ انسانیت کو دنیاو آخرت میں تباہی کی راہ پر چلنے اور ہلاک ہو جانے سے بچا لیا جائے۔انسانیت کی بھلائی کے بہت حد حریص تھے۔جب ابو طالب کے ذریعے آپ صہ پر دباؤ ڈالا گیا تو اسی جذبہ خیر نے آپ صہ سے کہلوایا کہ اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر چاند اور بائیں پر سورج رکھ دیں تو بھی میں اپنی دعوت کی اشاعت سے باز نہ آؤں گا۔خود مسلمانوں کے لئے تو آپ ﷺ سراپا شفقت ورحمت تھے۔شر سے بچانا چاہتے تھے خواہ وہ موسیقی کی شکل میں ہو یا شراب،جوا ،بت ہانس کی شکل میں،سود کی شکل میں ہو یا بے پردگی و فحش کی اشاعت کی صورت میں،کفر کی علمبرداری کی شکل میں ہو یا منافقین کی شکل میں۔نہ صرف دفع شر کے لئے کوشاں رہتے بلکہ مسلمانوں کے لئے ہر طرح کی خیر کے بھی خواہاں تھے۔دنیا میں امامت وشہادت کے منصب کے منصب پر دیکھنا چاہتے تھے اور آخرت میں انبیا،شہدا،صدیقین اور صالحین کے ساتھ انجام کے خواہاں تھے۔قرآن میں آتا ہے:
ترجمہ:بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے، عظیم الشان رسول تشریف لائے، جو چیز تمہیں مشقت میں ڈالے، وہ انہیں بہت ناگوار گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے بہت ہی متمنی ہیں۔ مومنوں پر بہت ہی مہربان و رحیم ہیں۔(التوبہ)
بے شک قرآن کے ساتھ سنت کا چھوڑ جانا بھی آپ ﷺ کا احسان عظیم ہے۔سنت کے بغیر راہ ہدایت کو پا لینے کا دعویٰ کرنا ایسے ہی ہے جیسے والدین میں سے کسی بھی ایک کے احسانات کا انکار کر یا غیر اہم سمجھ کر یا ایک کی خدمت کو فلاح کے لئے کافی سمجھ کر دوسرے کی خدمت اور احترام کی بدولت جنت کے حصول کی تمنا رکھنا۔
آپ ﷺ ہی نےجہالت مٹائی،قبائل کو شیرو شکر کر دیا،حق و باطل کو واضح کر دیا،انسانیت خصوصا عربوں کو متمدن اور مہذب بنا دیا۔بچوں،عورتوں،غلاموں،بوڑھوں سمیت تمام انسانوں کے حقوق بتائے،
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
محسن انسانیت کا حق ادا کرنے کا قرآنی طریقہ یوں ہے
یاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
اے ایمان والو! تم ( بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام ( بھی ) بھیجتے رہا کرو۔
آپ ﷺ نے فرمایا ! قیامت کے دن،لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا،جو مجھ پر زیادہ درود بھیجتا ہو۔(سنن ترمذی)