اجتماع امت کیسے؟‎‎

ملک عرب جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب چکا تھا، ذات پات کا تعصب تھا،نسل پر فخر کیا جاتا تھا، جنگ وجدل معمول بن چکا تھا، عزت، جان، مال ہر آن خطرے کی زد میں رہتیں۔ ایسے میں جب کہ حکومت کا بھی کوئی تصور نہیں تھا، قومی زندگی برقرار رکھنے اور تمدنی و معاشی معاملات ایام الحج میں طے پاتے رہے۔ اور سال کا تہائی حصہ عربوں کو اپنے زبان وادب کی ترویج اور تجارتی معاہدے طے کرنے کو مل جاتا۔ گویا جب انبیاء کی تعلیم کو بھلایا جا چکا تھا اور انتشار پر قابو پانے کے لئے کوئی ضابطہ یا فلسفہ نہ تھا اور عرب اپنے نفع ونقصان سے غافل انا کی جنگ میں اپنے آپ کو بھسم کر دینے پر تلے تھے۔ تب بھی کعبہ کے محافظ “اللہ” نے مرکزی مقام اپنےگھر کو بنائے رکھا،ایک دوسرے کے جانی دشمنوں کو وحدت اسی گھر میں میسر تھی۔

ہم جو کہ خیر امم کے مرتبے پر فائز کیے گئے آج انتشار کا شکار ہیں۔ اسلامی ممالک کی طویل فہرست اور کثیر التعداد مسلمانوں کو وہن نے جکڑ رکھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فلسطین اور مسجد اقصٰی کے معاملے نے بھی ہمیں یک آواز نہیں ہونے دیا حالانکہ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ کسی زنگی اور صلاح الدین کی غیرت کو للکار رہا ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سارے انبیاء بشمول سلیمان علیہ السلام مسلم تھے، یہودی نہ تھے اور نہ ہی عیسائی اور مسلم مساجد تعمیر کیا کرتے ہیں ہیکل نہیں۔ لہٰذا یہودیوں کا ہیکل سلیمانی کا دعویٰ سراسر بغض اسلام کا نتیجہ ہے۔ مسجد اقصیٰ ہمیشہ سے مسجد ہے اور مسجد رہے گی۔ بیت المقدس کی حفاظت بھی انہی لوگوں کے سپرد کر دی گئی جنہوں نے اسے قبلہ اول مانا اور پھر خانہ کعبہ کو مرکز مانا۔ افسوس کہ ہم زمانہ جاہلیت کے عربوں جیسے بھی نہ ہو سکے جو حرم پاک کے تقدس میں ہتھیار نیچے کر لیتے تھے اور ایک ہو جاتے تھے۔

منفعت ایک ہےاس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کبھی بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ضرورت اس امر کی ہے کہ کعبہ کی مرکزیت کے فلسفے پر غور کریں۔ سنٹر آف ارتھ خانہ کعبہ کیوں ہے ہمیں اس کے مقصد کو سمجھنا ہو گا۔ موٴلف۔ طارق اقبال سوہدروی۔ جدہ۔ سعودی عرب نے اپنے تالیف کردہ مضمون میں درج زیل تحقیقات بیان کی ہیں۔ پروفیسرحسین کمال الدین ریاض یونیورسیٹی میں شعبہ انجینئرنگ میں پروفیسر ہیں۔ سپنی تحقیق کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ایسا دائرہ بنایا جائے کہ اگر اس کا مرکز مکہ ہوتواس دائرے کے بارڈرز تما م براعظموں سے باہر واقع ہوں گے اور اسی طرح اس دائرے کا محیط تمام براعظموں کے محیطوں کا احاطہ کر رہا ہوگا۔ (المجلہ العربی ۔نمبر 237،اگست 1978ء)

سید ڈاکٹر عبدالباسط مصر کے نیشنل ریسرچ سنٹر کے ممتاز رکن ہیں۔ انہوں نے 16جنوری 2005ء میں سعودی عرب میں المجد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تھا اور کئی ایک انکشاف کئے۔ انہوں نے کہا کہ کعبہ زمین کے اس مقام پر ہے کہ جہاں زمینی مقناطیسی قوتوں کا اثر صفر ہے، نتیجتاً جو کوئی مکہ کی طرف سفر کرتاہے یا اس میں رہتاہے وہ صحت مند اورلمبی عمر پاتاہے۔ اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ایسا اس لیے ہوتاہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کی قوت کے اثر سے باہر ہوتے ہیں۔

لہٰذا ! عقلی مذہبی ودینی، جغرافیائی وسائنسی لحاظ سے مکہ اور بیت اللہ ہی زمین کا مرکز ہے۔ امن کی ضمانت ہر دور میں اسی مرکز نے دی اور دیتا رہے گا۔ ہر قسم کے مفادات اور تعصبات سے نکل کر اسی مرکز پر مجتمع ہونے سے اُمت کی فلاح ممکن ہے۔ حیرت ہے تمام دنیا سے حج کے لئے آنے والے لبیک اللھم لبیک کا مشترک نعرہ تو لگاتے ہیں مگر فلسطین وکشمیر،شام اور کئی ایک مسلم ممالک میں جاری چنگیزیت پر مبنی مظالم کی تلخ حقیقتیں اس نعرہ لبیک پر سوال کناں ہیں۔ ضرورت ہے اس مرکز سے وابستہ ہو کر عملی طور پر امت کے مسائل کے حل کی اور حقیقی معنوں میں نعرہ لبیک کو درست ثابت کرنے کی۔ اللہ ہمیں اجتماع اُمت کے لئے کوششیں کرنے والا بنائے۔ آمین۔