سچائی وہ ہتھیار ہے جو بڑے بڑے مہلک ہتھیاروں اور آمروں کا تنہا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس میں اللہ نے اتنی طاقت اور اتنا اعتماد رکھ دیا ہے کہ یہ کسی جابر کے آگے کلمہ حق کہنے سے نہیں چوکتی اور ایک سچی آواز اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ بڑی بڑی سلطنتوں کا اقتدار خطرے میں پڑ جاتا ہے اور نمرود وفرعون کہلانے والے وقت کے آمر پورے ملک اور حکومت کے تمام وسائل اس آواز کا گلا گھونٹنے میں لگا دیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک آواز پر اتنے خدشات اور اندیشے کیوں؟ ظاہر سی بات ہے کہ جب باطل کے ایوانوں میں کھلے عام کلمہ حق کی آواز گونجتی ہے تو صدیوں سے پسے مظلوم مگر بزدل، باطل کی رعایا مگر عدل کے متلاشی لوگوں میں امید کی کرن پنپتی ہے تو حکمرانوں کو بغاوت کے لہراتے پھریروں کا اندیشہ سونے نہیں دیتا اور وہ غضبناک ہو کر کلمہ گو کو عبرت ناک سزا دینے کے لئے تمام وسائل لگا دیتے ہیں، موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے، ابراہیم عہ کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے مگر اللہ نے اپنے سچے بندوں سے ابھی کام لینا ہوتا ہے، اںھی ان کا مشن ادھورا ہوتا ہے لہٰذا وہ فرعون کو اس کے حواریوں سمیت غرق کر دیتا ہے، ابرہیم علیہ السلام کی آگ ٹھنڈی کر دیتا ہے۔تاہم اگر اللہ اپنے بندوں سے مطلوبہ کام لے چکا ہوتا ہے تو انہیں شہادت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ سچائی بے پناہ طاقت ور ہے مگر آگ میں کودنے کا حوصلہ رکھنے والے ہی اسے اپناتے ہیں۔
اللہ نے دو راستے ہی پیدا کیے ہیں ایک نیکی اور دوسرا بدی کا۔بدی خواہ کوئی فلسفہ، نظریہ، نظام لے آئے، دانش مند کہلائے مگر بدی ہی رہتی ہیں۔ کوئی انسان ہو یا نظریہ، سوچ ہو یا عمل سچائی سے خالی ہو تو منافقت، حق وباطل کی کشمکش میں غیر جانبداری، حق کو چھپانے جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جیسے یہودی تصورات کی پیش گوئی کے مطابق نبی آخر الزماں کے شدت سے منتظر تھے مگر جب ختم المرسلین ان کے قبیلے میں پیدا نہ ہوا تو ضد اور عناد نے انہیں دائرہ حق میں قدم رکھنے سے روک دیا وہ تکبر میں پڑ گئے۔ جب سچائی کا دامن دانستہ یا نا دانستہ چھوڑ دیا جائے تو کتمان حق جیسی برائی جنم لیتی ہے، حق کو خلط ملط کر کے پیش کیا جاتا ہے، افواہ سازی کا پیشہ عروج اختیار کرتا ہے۔ مصنوعی اخلاق کے پردے چاک ہوتے ہیں، پارٹی بازی کا کلچر زور پکڑتا ہے کیونکہ باطل کو اپنے بال وپر کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ عدم صدق جس انسان میں بھی ہو اس کی کذب بیانی یا کذب کا پردہ جلد یا بدیر چاک ہو کر رہتا ہے، اخلاق رذیلہ پھلتے پھولتے ہیں۔ عدم صدق ہی یوٹرن لینے پر مجبور کرتا ہے۔
سیدنا صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ(حضور) کیا مسلمان ڈرپوک ہوسکتا ہے آپﷺ نے فرمایا:ہاں! پھر فرمایا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟آپﷺ نے فرمایا:ہاں! لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ(حضور) کیا مسلمان بھی کذاب دروغ گوہوسکتا ہے توآپﷺ نے فرمایا:ہرگزنہیں۔ (مؤطا امام مالک)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ تم ہمیشہ سچ بولو، اس لئے کہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس صدیق لکھ دیاجاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ’’کذاب‘‘ لکھ دیاجاتاہے۔ (مسلم:2607)
عدم صدق کے باعث قول و فعل میں تضاد پیدا ہوا ہے اور قول فعل میں تضاد معاشرے میں بے چینی بے سکونی پیدا کرتا ہے
اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚ (النساء:۱۳۵)
یہ آیت عدم صدق کی پہچان کا بہترین معیار ہے۔ اگر سچائی کے آجانے کے بعد، اس کو پہچان لینے کے بعد بھی اس کا اعتراف نہ کیا جائے تو پھر تیار رہنا چاہیئے۔
وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرۃ:۱۰)
اللہ ہمیں عدم صدق کی برائیوں سے محفوظ رکھے اور منافقت، جھوٹ، کتمان، حق، عناد، تکبر، ڈھٹائی، انکار، حق وباطل کی جنگ میں غیر جانبدار ہونے سے بچائے۔ آمین