اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ’رَفَعْنَا لَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے
اقبال اور اقبالیات کا جب بھی ذکر آئے گا،اقبال اور عشق رسول کے پہلو کو اجاگر کیا جائے گا کیونکہ اقبال کی پوری زندگی عشق رسول اور اطاعت رسول ﷺ سے عبارت ہے۔ آپ رحہ کبھی تو آپ ﷺ قراں، فرقان، یٰسین، طہٰ کہہ کراپنے جذبہ دروں کا اظہار کرتے ہیں تو کبھی وحدت کی بنیاد “محمد عربی” کو بتاتے ہیں۔
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
اقبال عشق رسول کو بے پناہ مسائل کا حل گردانتے ہیں
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
اقبال نے تعلیم کے سلسلے میں ایک عرصہ یورپ میں گزارا مگر ویاں چکا چوند سے متاثر ہونے کی بجائے یورپ کی مصنوعی چمک کو طشت ازبام کیا۔یورپ میں رہنے کے باوجود عشق رسول کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی محمد صاحب کہہ کر بات کرتا تو اقبال سیخ پا ہو جاتے۔ ایک بار کسی نے آپ کی محفل میں نبی مہرباں ﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو اسے محفل سے باہر نکلوا دیا۔ خاک مدینہ سے مضبوط رشتے ہی کی بدولت آپ رحہ علم الدین پر رشک کرتے نظر آتے ہیں اور عبد القیوم کی استقامت کو سلام پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گفتار سے امت کے قلب و ضمیر کو جگا دینے والے نے اپنے بارے میں بھی سچ کہا۔
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا یے
کردار کا یہ غازی تو بنا گفتار کا غازی بن نہ سکا
آپ نے بجا طور پر تہذیب حاضر کی چمک جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کہا اور مسلمانوں کو جتایا کہ خاک مدینہ ونجف سے تعلق رکھنے والے فرنگی دانش کے جلوؤں سے متاثر نہیں ہو سکتے۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہء دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
اقبال نے اُمت سے خیر خواہی ہی کی بنیاد پر اور روح محمدی ﷺ مسلمانوں میں راسخ کرنے کرنے کی بھر پور کوشش کی اور فرنگی سازشوں کا پردہ نہایت خوبی سے چاک کرتے ہوئے عشقِ رسول کو مسئلے کا حل قرار دیا۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو
آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو
یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے اُمت کا شیرازہ بکھرنے کا غم دل پر لیا اور محمد ﷺ سے مخاطب ہو کر اُمت کی کمزوری ایمان اور عشق کے تعلق میں کمی کا نوحہ کہا۔
شیرازہ ہُوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حُدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے رُوحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اقبال کا جذبہ عشق نسل نو میں منتقل کریں اور اس کی بہترین تدبیر یہی ہے کہ جذبہ عشق کو اپنے اندر یوں راسخ کیجئے کہ غازی علم الدین اور عبدالقیوم جیسے شہداء کا خراج کلیسا اور کلیسا نوازوں سے نہ مانگنا پڑے۔ شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
سچ تو یہ ہے کہ اقبال نے قرآن سے شغف اور فہم قرآن میں ڈوب کر شاعری کی۔ اقبال نے آیت قرآنی کے مفہوم کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو رسول کی اطاعت کرو تا کہ اللہ تم سے محبت کرے۔ کو یوں بیان کیا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
لہذا اٹھیے اور عشقِ رسول میں ڈوب کر اپنی تقدیر آپ بن جائیے۔ پھر ہی خدا آپ سے آپ کی رضا پوچھے گا۔ عشقِ رسول کا فقدان ہی ہمیں اپنے مقصد حیات سے غافل کیے ہوئے ہے حالانکہ عبادت کے لئے ہی انسان پیدا کیا گیا ہے مگر وہ عبادت جو اطاعت اور عشق رسول سے مزین ہو۔ وہ عبادت جو لا الہ الا اللہ کے شعور کے ساتھ محمد الرسول اللہ کی شہادت بھی دیتی ہو۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن