ہانیہ ہانیہ اپنے کھلونے سمیٹ کر رکھ دو کہاں گھوم رہی ہو۔ ہانیہ یہ کیا کیا سارا پانی گرا دیا۔ ہانیہ اب یہ کیا کیا سالن میں ہاتھ کیوں ڈالا۔ ہانیہ تم تو سو رہی تھی باہر کب گئیں۔ ہانیہ اب اگر موبائل کو ہاتھ لگایا تو میں ناراض ہوجاؤں گی۔ ہانیہ ہانیہ اور بس ہانیہ پورے گھر میں نازیہ اپنی تین سالہ پیاری سی بیٹی کی شرارتیں اور اس کی پھیلائی چیزوں کو سمیٹتی رہتی ہانیہ بہت ہی پیاری اور اچھی بچی تھی مگر شرارتیں بہت کرتی تھی نازیہ دن پھر اس کا خیال کرتی اس کے پیچھے پیچھے رہتی کہ کہیں کچھ نقصان نہ پہنچا دے خود کو۔ ابھی نازیہ گھر کی صفائی کر کے چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر بیٹھی ہی تھی کہ صحن میں کچھ گرنے کی آواز آئی ۔ نازیہ دوڑ کر صحن میں گئی۔۔ ہانیہ میڈم نے وائپر اٹھایا ہوا تھا اور ساتھ ہی بالٹی سے پانی نکال نکال کر صحن میں پھیلا رہی تھی۔ نازیہ نے جھٹ سے ہانیہ کو گود میں اٹھا لیا اور پیار سے کہا، ؎دادی امّاں ! میں نے صفائی کر لی ہے اب آپ کس خوشی میں بارش کر رہی ہیں۔
ایسے ہی ایک دن نازیہ مٹر پلاؤ دسترخوان پر رکھ کر سلاد اور رائتہ لینے باورچی خانے تک گئی تھی۔ واپس آ کر دیکھا تو ہانیہ میڈم نے پلاؤ میں گلاس بھر کر پانی ڈالا ہوا تھا جیسے کھچڑی بنائی ہو نازیہ نے گہری سانس لی اور غصہ ہضم کر گئی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی ہانیہ میڈم نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا کچھ دیر تو ٹھیک رہا مگر جب ماں کی یاد آئی تو ہانیہ نے رونا شروع کردیا۔ اب نازیہ باتھ روم کے باہر کھڑی رو رہی تھی اور ہانیہ اندر۔ تھوڑی دیر بعد ہانیہ کے بابا اسد بھی آگئے۔
اسد نے ہانیہ کو باتوں میں لگایا اور کہا جیسا بابا کریں آپ بھی ویسا ہی کریں۔ اسد نے پھلے دروازہ بجایا کھولو ہانیہ۔ ہانیہ نے بھی دوسری طرف سے دروازہ بچایا دروازہ کھولو ہانیہ۔ اسد خوش ہوگیا کام بن گیا۔ اسد نے پھر کہا۔ میں کنڈی کھولتا ہوں ہانیہ نے بھی یہی الفاظ دھرائے۔ اسد نے کنڈی کو آگے پیچھے کیا اور کہا نے کنڈی کھول دی۔ ہانیہ نے جب یہی عمل دھرایا تو واقعی کنڈی کھل گئی۔ یوں نازیہ کی جان میں جان آئی۔
ہانیہ کی شرارتیں خاندان بھر میں مشہور تھیں. ان ہی شرارتوں کی وجہ سے ہانیہ سب کی لاڈلی تھی۔ آج ہانیہ کی چھوٹی پھوپو کی رخصتی تھی گھر میں شادی کا ماحول تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے ہانیہ کو بھی گلابی فراک گلابی پمپی اور رنگ برنگ کلیپس سے بالوں کو سجایا ہوا تھا۔ نازیہ نے بھی خوب تیاری کی ہوئی تھی اب وہ ہانیہ کو مہمانوں کے سپرد کر کے خود زرا میک اپ کرنے چلی گئی۔ ہانیہ بھی مزے سے اپنے ماموں اور چچاؤں کےساتھ گھوم رہی تھی۔ برات بھی آگئی تھی مہمانوں کا استقبال نازیہ نے خوب دل سے کیا۔ اب نکاح شروع ہوا تو نازیہ کو یاد آیا کہ ہانیہ کو بھی لے آؤں کب سے میں نے دیکھا بھی نہیں۔ نازیہ نے دوپٹہ سر پر لیا اور اسد کو آواز دی۔ ہانیہ کو مجھے دے دیں وہ کب سے باہر ہے۔ اسد نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر ہانیہ تو کہیں بھی نہیں تھی۔ اسد نے کہا۔ دیکھو اندر ہی ہوگی۔
نازیہ نے کہا۔ نہیں وہ اپنے چاچو کے پاس تھی آپ پوچھیں ان ہی کے پاس ہوگی۔ اسد نے نازیہ کو اندر جانے کا کہا اور خود ہانیہ کو تلاش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد نکاح بھی ہوگیا اب رخصتی کی باری تھی اسد نے بہن کو محبت سے رخصت کیا۔ مگر ہانیہ اب تک لاپتہ تھی۔ جب سب مہمان جا چکے تو نازیہ نے اسد کی طرف دیکھا۔ ہانیہ کہاں ہے؟
اب اسد کا ضبط ٹوٹ چکا تھا رات کے بارہ بج رہے تھے ننھی پری ہانیہ کا کچھ پتہ نہیں تھا پورا گھر دیکھ لیا محلے میں بھی پوچھا مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔ نازیہ کا تو رو رو کر برا حال ہو رہا تھا وہ خود کو ذمہ دار ٹھرا رہی تھی کاش میں نے اسے اکیلا چھوڑا ہی نہیں ہوتا برے برے خیالات اس کے ذہن میں آتے اور اس کے رونکٹے کھڑے ہوجاتے کہیں یہ اغوا کاروں کا تو کام نہیں کسی نے پکڑ تو نہیں لیا۔ کہیں بے حوش تو نہیں کر دیا ہانیہ رو رہی ہوگی۔
اسی درد اور ازیت میں رات کے دو بج گئے۔ اسد نے بائک کی چابی اٹھائی اور کہا میں تھانے جا رہا ہو ایف آئی آر کروانے۔ بس اب چاروں طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔ نازیہ جائے نماز پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ تب ہی ٹیبل کے نیچے سے ننھی سی آواز آئی مما مما۔ ہانیہ آنکھوں کو مسلتی ہوئی ماں کی گود میں بیٹھ گئی۔ اس وقت اکثر ہانیہ بھوک سے جاگ جاتی تھی۔۔ مما نانا تھاؤں گی۔
اس آواز نے گھر والوں کے چہرے چمکا دیئے سب زور سے ہنسنے لگے اسد نے ہانیہ کو گود میں اٹھا لیا۔ میڈم آپ کی آج کی شرارت نے تو ہماری جان ہی نکال دی تھی کوئی ٹیبل کے نیچے بھی سوتا ہے کیا۔ نازیہ نے شکر کا سجدہ کیا۔ اور سوچنے لگی جن ماؤں کے بچے سچ میں گم ہوجاتے ہیں یا اغوا ہوتے ہیں ان ماؤں پر کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی۔ اللہ سب کے بچوں کی حفاظت کرے۔ آمین ۔