اتور 24 اکتوبر کی صبح ٹی وی پر نیوز دیکھی نیوز کراچی کے ماڈرن ایریا کلفٹن سے متعلق تھی سیلاب متاثرہ خاندان کی دس سالہ بچی کو اغوا کر کے اجتماعی ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا بچی کی حالت بے حد نازک بتائی گئی ہے۔
بہت ہی درد کے ساتھ قلم اٹھاتی ہوں جب ایسے کسی موضوع پر لکھنا پڑے ذہن میں بس ایک لفظ ارہا ہے اور وہ ہے “جنازہ” انسانیت کا جنازہ اٹھ رہا ہے اور ہم خاموش ہیں۔ وہ خاندان جو پہلے سیلاب کی تباہ کاریاں جھیل اور مالی و جانی نقصان اٹھا کر کراچی پہنچے ہیں کہ یہاں ہمارے دکھوں کا مداوہ کیا جائے گا اور کراچی کے لوگ اتنے محبت اور خلوص کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں کہ ان غریبوں کی امید لگانا بنتا بھی ہے۔
میرے ارض وطن کو جب بھی کسی ناگہانی أفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہمیشہ کراچی کی عوام صف اول پر نظر أئی پھر چاہے کراچی کی این جی اوز ہوں فلاحی ادارے ہوں یا پھر نوجوان، بچے، بزرگ یہاں تک کے خواتین بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ حالیہ سیلاب میں الخدمت جس طرح کام کرتی رہی ان کوملکی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کالی بھیڑیں یہ درندے میرے کراچی کی کی گئیں ساری نیکیوں پر دھبہ لگانے کہاں سے گھس آئے ہیں کہ جن بے حسوں نے دس سال کی معصوم بچی پر رحم نہ کیا اور اسے اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالا وہ بھی کلفٹن جیسے پوش علاقے میں جہاں تقریباً پورے شہر سے ذیادہ ماڈرن اور پڑھے لکھے لوگ رہائش پزیر ہیں۔
سابقہ حکومت ریاست مدینہ بنانے کے دعوے لے کر آئی تھی کراچی کی عوام نے انھیں بھاری مینڈیٹ سے کراچی میں جتوایا مگر نتیجہ کیا ہوا ریاست مدینہ تو کراچی میں کیا بننی تھی کراچی کی گلیاں اور سڑکیں ریاست کچرا، ریاست گٹر، ریاست اندھیرا بنی نظر آنے لگیں ۔
کراچی کے اپنے مسائل داد رسی کے لئے کوئی ادارہ فعال نظر نہیں آتا تو متاثرہ بچی جس کا تعلق شکار پور سے ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کی غریب سیلاب ذدہ فیملی کی داد رسی یہاں کی کوئی بھی حکمراں پارٹی کرے گی؟
کہاں جائے گی وہ ماں جو قدرتی آفتوں میں سے اپنی اور اپنی بچی کی جان اور عزت بچا کر اس شہر تک أئی تھی کہ یہاں اب وہ محفوظ ہوگی مگر اس کی معصوم بچی کو کیا پتا تھا کہ سیلاب سے بڑی أفت منہ کھولے اس کا انتظار کر رہی ہے۔
شہر قصور کی ہر زینب کا انتظار تو ہر شہر میں کوئی نہ کوئی درندہ کر ہی رہا ہے ان درندوں کا انجام تب تک ممکن نہیں جب تک کلمے کی بنیاد پر بننے والے اس ملک میں نظام مصطفےٰ کا نفاذ نہ کیا جائے۔ جڑ جائیں اس اجتماعیت سے جو اس ملک میں اسلامی قانون نافذ کرائے ۔ سنگسار کرو ایسے زانیوں کو جو نہ بچی پر رحم کرتے ہیں نہ ہی بچے پر، بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں أج کسی کی بچی کے لئے أواز اٹھائیں گے تو ہمارے بچوں کا کل محفوظ ہو گا۔