یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے حالیہ تنازع میں جہاں ایک طرف نیوکلیائی جنگ اور بحران کا خطرہ پیدا کردیا ہے وہیں ایک خطرہ اور درپیش ہے اور وہ ہے یورپ میں توانائی کا بحران۔ یورپین ممالک کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ یہ صورت حال ان کو اتنے زبردست بحران سے دوچار کردے گی کہ ان کی راتیں زیادہ اندھیری اور سرد ہونے کا اندیشہ ہے۔ 7ماہ سے چل رہا یہ توانائی بحران آج یورپ کے ہر ملک کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ یورپین ممالک جو کہ اجتماعی فیصلے لینے اور اجتماعی حل تلاش کرنے کے لیے مشہور تھے۔ آج بے بس دکھائی دے رہے ہیں اور ان میں اسپین، فرانس، جرمن، اٹلی خاص طور پر شامل ہیں۔ حال ہی میں بالٹک ممالک کو اس وقت مشکلات درپیش آگئیں جب روس کی ناردن پائپ لائن میں دھماکہ ہوگیا اور ان ملکوں کو جانے والی گیس کی سپلائی متاثر ہوگئی۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپین ممالک روس سے سب سے زیادہ گیس اور تیل کی منگواتے تھے۔ 2020ء میں روس سے ملنے والا تیل تقریباً 138ملین ٹن تھا جو کہ روس کی مجموعی ایکسپورٹ کا 53فیصد تھا۔ روس پوری دنیا کو 260ملین ٹن تیل ایکسپورٹ کرتا ہے اب مغربی ممالک کی روس پر پابندیاں نہ صرف یہ کہ روس کی معیشت کو برباد کررہی ہے بلکہ اس کا گہرا اثر یورپی ممالک کی روز مرہ کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو امید تھی کہ ان مغربی ایشیا کے ممالک سے تال میل کرکے وہ اس بحران کو کسی حد تک نہ صرف موخر کردیں گے بلکہ ختم بھی سکتے ہیں۔ مگر اوپیک اور اس کے دیگر حلیف ممالک سپلائزرنے مغربی ممالک کو آنکھیں دکھا دی ہیں۔ یہ ممالک چاہتے تھے کہ مغربی ممالک سے تیل کی سپلائی کو بڑھا دیا جائے تاکہ روس سے آے والے تیل اور دیگر توانائی کے وسائل کی کمی کا ازالہ کردیا جائے۔ مگر یہ مغربی ایشیا کے ممالک نے بطور خاص اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا جس سے یورپ اور امریکہ میں بے چینی ہے۔
تیل کے علاوہ روس قدرتی گیس فراہم کرنے میں بھی کافی اہم رول ادا کرتا ہے۔ یورپ کو جو قدرتی گیس سپلائی کی جاتی ہے وہ روس کی مجموعی قدرتی گیس سپلائی کا ایک تہائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کو جرمنی کی ضروریات کا نصف حصہ ملتاتھا۔ اسی طرح فرانس بھی اپنی ضروریات کا ایک چوتھائی روس سے حاصل کرتا تھا۔ یوکرین جنگ کے ابتدائی ایام میں جرمنی یورپی ممالک کے ساتھ روس کے خلاف محاذ آرائی میں جس پس وپیش کا مظاہرہ کررہا تھا اس کے پس پشت کی جرمنی کی یہی مجبوری تھی۔ جرمنی چاہتا تھا کہ وہ روس کے ساتھ مزید سمجھوتے کرکے قدرتی گیس کی سپلائی کو اور بہتر بنالے تاکہ امریکہ پر اس کا انحصار کچھ کم ہوجائے۔ مگر امریکہ کو یہ بات قبول نہیں تھی او روہ نہیں چاہتا تھا کہ یورپ کی سپلائی کے معاملے میں اس کی موجودہ اجارہ داری متاثر ہو۔
کئی مبصرین کی رائے ہے کہ روس امریکہ کے درمیان یہی رقابت تھی جو کہ یوکرین جنگ کا سبب بنی۔ بہر کیف آج حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک یوروپی یونین کی اجتماعیت کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ یوروپی اقدار کے نام پر یورپی یونین منمانی کررہی ہے اور کئی ملکوں میں دائیں بازوکی پارٹی کے برسراقتدار آنے سے یوروپی یونین کی بالادستی کو چیلنج کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔حالیہ اعداد وشمار کے مطابق اٹلی، برطانیہ ، اسپین وغیرہ کسی بھی متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے کمر کس چکے ہیں اور ان ملکوں نے گیس اور پٹرولیم کی سپلائی کے لیے متبادل وسائل اور ممالک تلاش کرلیے ہیں۔ ناروے یورپ کا قدرتی گیس سپلائی کرنے والا ایک اہم ملک ہے۔ برطانیہ جو کہ پہلے ہی اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ اس نے ناروے اور قطر کے ساتھ سمجھوتے کرکے گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
اسپین جوکہ یورپ کا اہم صنعتی ملک ہے نے پچھلے دنوں شمالی افریقہ کے ملک الجیریا سے اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ الجیریا اور اس کے پڑوس ملک، تیونس میں اختلافات ہیں جو کہ اٹلی کی کئی ناعاقبت اندیشانہ حرکتوں کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ الجیریا نے اس بحران میں اپنی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سخت فیصلہ کیا تھا اور اٹلی کو گیس کی سپلائی روک دی تھی۔ مگر یورپی یونین نے مداخلت کرکے الجیریا کو اس بات کے لیے مجبور کیا کہ وہ اٹلی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ختم نہ کرے اور توانائی کے وسائل کی سپلائی اسی طرح برقراررکھے جس طرح کرتا آرہا ہے۔ اٹلی ، الجیریا اور تیونس کے درمیان سرحد کو لے کر تنازع میں پھنس گیا تھا ۔
بہرکیف یورو پی یونین کے دبائو میں آکر یہ بحران فی الحال ٹل گیا ہے۔یورپ کے کئی ممالک میسی ڈونیا ، بوسنیا، ہرز گوینا اور مولڈووا روس سے گیس حاصل کرتے تھے۔ مگر اب اس بحران کی وجہ سے دیگر یورپی ممالک مذکورہ بالا چاروں ممالک فن لینڈ اور لاتبویا پر منحصر ہوکر رہ گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج یورپ جس بحران سے گزر رہا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یورپی ممالک کو اپنی فیکٹریاں ، کارخانہ وغیرہ بند کرنے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ گھروں میں استعمال ہونے والی قدرتی گیس کی سپلائی بھی متاثر ہوجائے۔ ایک بڑے طبقے کی رائے ہے کہ روس کو اس جنگ کو بڑھانے میں دلچسپی ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ یورپ کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ وہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اس قدر اہم ہے۔ ایک طبقے کی رائے ہے کہ روسی سرکار کی کنٹرول ایکسپورٹ کمپنی نے گیس سپلائی جان بوجھ کر روک دی تھی۔ کیونکہ روس نہیں چاہتا تھا کہ جرمنی اور فرانس مل کر قدرتی گیس اورپٹرولیم کی ذخیرہ اندوزی میں کامیاب ہوجائے۔
جرمن اور فرانس نے ایک دسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس جرمنی کو قدرتی گیس کی سپلائی فراہم کرنے کا جبکہ جرمنی بجلی کی پیداوار کو بڑھا کر سرد ترین دنوں میں ہے۔ کسی بھی ممکنہ بحران کا مقابلہ کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ فرانس میں بجلی بحران اس سے بھی شدید ہے کہ فرانس کے 65میں 25بجلی پیدا کرنے والے نیوکلیر تنصیبات کے لیے بند ہیں۔ فرانس میں تیل کی شدت کی وجہ سے سڑکوں پر صارفین دست گریباں دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ یوکرین بحران کی وجہ سے دنیا بھرمیں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ عالمی بینک کے ماہرین کے مطابق توانائی کے بحران سے متاثرہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ممالک کو مزید معاشی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔