ایک بزرگ جانے کن کن ممالک کے دورے کے بعد، منصورہ پہنچتے ہیں، گھر جانے سے پہلے دارالمال جاتے ہیں، اپنی شیروانی جیبوں سے ریال، ڈالر، پونڈ، کرنسی نوٹ، روپے، چیک نکالتے ہیں، ایک ایک جیب ٹٹولتے ہیں، کسی کونے کھدرے میں کچھ رہ نہ جائے، سب کچھ نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں، اطمینان کا سانس لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں، یہ سب جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرکے رسید لکھ دو، شکر الحمدللہ کہتے ہوئے، کہتے ہیں میرے سر سے بوجھ اتر گیا۔ اب میں اطمینان سے گھر جاسکتا ہوں، یہ بزرگ خلیل احمد حامدی ہیں، جماعت اسلامی کے رہنما معروف عالم دین ، مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی دعوت دین کے لیے ملکوں ملکوں گھومتے، جو تحفے تحائف ملتے، چندہ اکھٹا ہوتا، وہ دورے سے واپسی پر گھر جانے سے پہلے جماعت کے بیت المال میں جمع کرادیتے۔
سید منور حسن کی صاحبزادی کی شادی ہوئی، بہت سے تحفے ملے، کئی لاکھ روپے کی مالیت کے، منور حسن نے بیٹی سے کہا، یہ تحفے منور حسن کی بیٹی کو نہیں ملے، یہ تو جماعت اسلامی کے امیر کی صاحبزادی کو ملے ہیں، چنانچہ یہ تحائف تمام کے تمام اٹھا کر جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیئے گئے۔ امانت کا یہ تصور ہی کسی معاشرے کی جان ہوتا ہے۔ موددی کی ویڈیو دیکھیں، سو کروڑ سے زیادہ کے تحائف جو انھیں ان کے مداح دوست احباب چیک، نقد رقم، تصویروں، تحائف کی صورت میں دیتے انھیں سرکاری خزانے میں جمع کراتے، پھر اس کا باقاعدہ نیلام ہوتا۔ انھوں نے یہ سو کروڑ روپے بچیوں کی تعلیم کے لیے خرچ کیئے۔
یہ ٹھیک ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن انھیں فروخت کرکے رقم کمانے کسی ہیرو کو زیب نہیں دیتا۔ قوم کے ہیرو اپنے اصولوں اور اخلاق اپنے پیروں کاروں کو تعلیم دیتے ہیں۔ مودی کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ یہ تحائف اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، قانون میں یہ گنجائش موجود تھی کہ اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ نواز شریف اور اس کے بعد آنے والوں نے اس اصول کو توڑا۔ پاکستان کے تین سابق حکمرانوں نے اس اپنے چہرے پر وہ کالک مل لی ہے، جو بار دھونے سے بھی کبھی نہ اتر پائے گی۔ تاریخ میں وہ چور، خائن، بد دیانت، امانت کا پاس نہ کرنے والے ہی کہلائیں گے، ان کو توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ ا، یہ ملک کے سابق وزراء اعظم میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان ہیں، صدر کے عہدے کو آلودع کرنے والے آصف زرداری بھی ان میں شامل ہیں، انکے پاس یوں بھی دولت کے انبار ہیں۔ ان کو کس چیز کی کمی تھی۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ آصف زرداری آج بھی یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔
ہم ملک میں انصاف کی دھائی دیتے ہیں، امانت دار صدیق کہلانے کے کہاں سے حقدار ٹہر تے ہیں، جب قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹتے ہیں، کبھی بیرون ملک دوروں کے نام پر، کبھی بیرون ملک علاج کے نام پر کبھی اپنے استحقاق کے نام پر قومی خزانے سے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اب عمران خان بد دیانت اور خائن ہوچکے ہیں، ہمارا قانون موم کی ناک ہے، جدھر چاہیں موڑ دیں، اس لیے اب اس بات کا امکان ہے کہ وہ اس مقدمے سے بری ہوجائیں گے، لیکن ان پر یہ داغ ایسا ہے جو کبھی دھل نہ سکے گا۔
انھیں عدالت ریلیف دینا چاہتی ہے، انھیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، احتجاجی سیاست ترک کرے الیکشن کی طرف آنا چاہیئے، اگلا سال الیکشن کا سال ہے، انھیں اب اس کی تیاریاں کرنا چاہیئے۔