عجب کشا کشی کا عالم ہے،خاندان جو محبت ویگانگت کی علامت ہوا کرتے ہیں ،ایک چھت تلے رہتے ہوئے بھی اک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ گھٹیا افعال کی بدولت برتری کا تاثر پیدا کرنا معموم بن چکا ہے۔جناب،یہ بالخصوص ان گھرانوں کی تصویر کشی کی گئی ہے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نسل نو کی تربیت و پرورش کی عظیم ذمہ داریاں دے کر گویا ایک عظیم امانت سونپ دی ہے۔محبت تو جانور بھی اپنے بچوں سے کرتے ہیں اور ضروریات سے تو وہ بھی باخبر رہتے ہیں۔ایسی کیا منفرد ذمہ داری حضرت انسان کو سونپ دی گئی جس کی بناء پر وہ نسلوں کا محافظ جانا گیا۔ یقیناً وہ ذمہ داری اولاد کو اخلاق عالیہ سے آراستہ کرنا، انہیں مقصد حیات سے روشناس کروانا،خالق کائنات کی پہچان کروانا اور تسخیر کائنات کے لئے تیار کرنا ہے۔
حسن سلوک اور حکمت کے امتزاج ہی سے نسل نو کو امامت اور شہادت کے منصب تک پہنچایا جا سکتا ہے، یقیناً گھریلو سیاست بچوں کی خداداد صلاحیتوں کو بھی زنگ لگا دینے کی صفت رکھتی ہے لیکن افسوس کہ بچوں کے اخلاق وکردار اور تربیت سے غفلت برتتے ہوئے بڑوں بڑوں کے اعصاب کو شکست دے دینے والا گھٹن زدہ ماحول گھروں میں عام ہو چکا ہے۔مائیں جو نسلوں کی پاکیزگی کی امین ہیں،خاندانی سیاست کے گرداب میں الجھی ہیں۔کبھی ان کو اعصابی جنگ میں شکست دے کر انہیں ان کے اصل محاذ یعنی تربیت اولاد سے غافل کی جا رہا ہے،کبھی میاں،بیوی کی نجی زندگی میں بےجا مداخلت کر کے بچوں کا کباڑہ کیا جا رہا ہے۔کبھی زوجین خود آپس کی خانہ جنگی میں بچوں سے بدخواہی کر رہے ہیں۔
بجا ہے کہ خاندان اور زوجین زمینی حقائق سے آنکھیں نہیں چرا سکتے لیکن بحیثیت مسلمان،گھرانوں میں کم از کم اتنا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں،ہمارا آئینہ ہیں،ملت کا اثاثہ ہیں،ہماری آزمائش ہیں۔ہماری جنت یا جہنم ہیں۔ یقیناً،مستقبل کو کوئی غیر محفوظ نہیں بنانا چاہتا، آئینے میں اپنا عکس خوبصورت ہی دیکھنا پسند کیا جاتا ہے،اثاثے کی حفاظت کے لئے جان لڑا دی جاتی ہے اور پھر بات جب ملت کے اثاثے کی ہو تو تغافل کیسا ! آزمائش میں بھی ہر کوئی کامیابی چاہتا ہے،جنت کا راہی بننا ہی سب کو پسند ہوتا ہے تو پھر بچوں سے اتنی بے توجہی کیوں! انہیں مادیت کی دوڑ میں شامل کروانا کیا معنی رکھتا ہے۔
موجودہ دور میں جب کہ فتنے چاروں طرف سے پھن پھیلائے کھڑے ہیں والدین کو چومکھی لڑائی لڑنے کے لئے گویا دعوت مبازرت دے رہے ہیں۔اگر آپ خود مختار والدین ہیں اور بچوں کے معاملات کے سلسلے میں خاندانی دباؤ کا بھی شکار نہیں ہیں تو بہت اچھی بات مگر اپنے مورچے مضبوط کر لیجئے کہ شیطان کی چالیں بہت خطرناک ہیں۔اگر آپ خودمختار والدین کی حیثیت سے بچوں کی تربیت کرنے کے مواقع نہیں پا رہے اور دباؤ کا شکار ہیں تو اس سوچ کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
حضرت آسیہ علیہ السلام اگر فرعون کے گھر میں اسرائیلی بچے علیہ کی پشت پناہ بن کر اسے تخت فرعون کے مقابل لانے کے لئے راہ ہموار کر سکتی ہیں تو مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوئے کیسے اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے بری ہو سکتے ہیں۔وہ گھرانے جہاں بزرگ نسلوں کی حفاظت کے فریضے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر اولاد،اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہے وہاں بزرگوں کو بہترین داعی بننے کی ضرورت ہے جبکہ وہ خاندان جہاں والدین اپنے فریضے کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر گھریلو سیاست یا نظریے کے اختلاف کی بناء پر دباؤ سے دوچار ہیں انہیں اپنے حالات کے تناظر میں بہترین حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم وہ خاندان خوش نصیب ہیں جو ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں اور جہاں والدین کے لئے آسانیاں پیدا کی جاتی پیں۔ہم میں سے ہر کوئی جس بھی حیثیت میں ہے نسلوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔ لہٰذا،اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور بچوں کی کردار واخلاق کی حفاظت میں سرگرم ہو جائیے۔اللہ ہمیں اپنے فرض کا شعور دے اور اسے نبھانے کی توفیق بھی۔آمین