کراچی کا ایریا ناظم آباد والدین کا اکلوتا بیٹا اسامہ 22 سال کا خوبصورت نورانی چہرہ موبائل شاپ پر موبائل ایسیسریز کی فروخت کا کام کرتا تھا شاپ بند کرکے گھر کی طرف روانہ ہوا ایک بائیک قریب آکر رکی کنپٹی پر پسٹل رکھی اور سارے دن کی حق حلال کی کمائی جیب سے نکالی موبائل نکالا یہ جا وہ جا، اسامہ ہاتھ ملتا گھر کی طرف چلا ایک بے بسی کا احساس رات بھر اسے کچوکے لگاتا رہا میں نے کتنی محنت کی، صبح کتنی میٹھی نیند آرہی تھی مگر فکر سے اٹھ کر کام پر گیا اور رات کو آتے آتے خالی ہاتھ۔
بہرحال دوسرے دن پھر شاپ پر چلا گیا۔ شاپ کے مالک نے شاپ کا مال لانے کے لئے کیش دیا اور بولا میری بائیک پر چلے جاؤ تاکہ جلدی واپس آجاؤ۔ بائیک ملنے پر اسامہ نے اپنے دو دوستوں کو بھی ساتھ لے لیا گلی کراس کرتے ہی وہی دونوں ڈکیت بائیک رکواتے ہیں اور پھر وہی تلاشی اسامہ کے دونوں دوستوں نے اپنے موبائل اور جو تھوڑے بہت پیسے جیب میں تھے انھیں دے دیئے مگر أج اسامہ نے کیش دینے سے انکار کر دیا کہ یہ پیسے میرے نہیں ہیں میں نہیں دونگا اتنا سننا تھا کہ ایک ڈکیت نے پسٹل کا بٹ اسکی کنپٹی پر زور سے رسید کیا اور بولا دیتا ہے کیش یا گولی مار دوں، مگر اسامہ بھی شائد کل والی بے بسی کے حصار سے نکل نہیں پایا تھا ورنہ کبھی بھی اپنی جان خطرے میں نہ ڈالتا دوستوں نے بھی بولا دے دے اسامہ یہ ہمیں مار دیں گے مگر اسامہ کو تو جیسے ضد سوار ہو گئی تھی اور پھر ظالموں نے اسکے دوستوں کو کہا بھاگ جاؤ وہ دونوں چند قدم ہی بھاگے ہوں گے کہ ایک فائر کی أواز أئی اور دونوں ڈکیت بائک پر تیزی سے فرار ہوتے ہوئے نظر آئےدونوں دوست پلٹ کر اسامہ کی طرف دوڑے اللہ ! اسامہ زمین پر گرا ہوا تھا اور اسکے عین دل کے مقام پر گولی ماری تھی ایمبولینس میں ڈال کر فوراً عباسی شہید ہاسپٹل پہنچایا مگر اسامہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔
اسامہ کی موت کے ٹھیک دو دن بعد دو گلیاں آگے طالبہ یونیورسٹی سے واپسی اپنے گھر کی طرف بڑھ رہی ہے دو ڈکیت آتے ہیں سنسان گلی میں لڑکی کا بیگ چھین کر تلاشی لیتے ہیں کچھ پیسے برامد کئے اور تڑخ کر بولے موبائل کہاں ہے لڑکی آج موبائل لے کر ہی نہیں گئی تھی مگر اس نے خوف کے مارے بول دیا کہ ابھی پچھلی گلی میں ہی چھینا ہے میرا موبائل ڈکیت غراتی آواز میں بولا جھوٹ بولتی ہے ہماری گلیاں بٹی ہوئی ہیں ان گلیوں میں ہماری علاوہ کوئی نہیں چھیں سکتا اور لڑکی کے ماتھے پر فائر مار کر یہ جا وہ جا یہ لڑکی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اگلا ہفتہ شروع ہوا رات گیارہ بجے کا وقت وہی ناظم آباد ہے ڈکیت کسی کو لوٹ کر فرار ہورہے تھے ان کی تیزی سے آتی بائک کو دیکھ کر راہ گیر لڑکا ادھر سے ادھر ہونے لگا ڈکیت لڑکے یہ سمجھے کہ وہ نوجوان انہیں روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے پیٹ میں گولی داغ دی وہ لڑکا بھی موقعے پر ہی جاں بحق۔
کیا ناظم آباد کے نوجوانوں کی جان اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ جس کا جب دل چاہے انہیں مار گرائے کہاں ہے پولیس کہاں ہے رینجرز کوئی ہے جو ان والدین کی شنوائی کرے کوئی اس ماں کے دل سے پوچھے کہ ظالموں نے جس کا کلیجہ چبا ڈالا اس کے اکلوتے بیٹے اسامہ کو صرف اس وجہ سے مار ڈالا گیا کہ وہ امانت کی حفاظت کر رہا تھا۔
کوئی اس باپ کا درد سمجھے گا جو کراچی کے ان حالات میں بھی اپنی جوان بچی کو حصول علم کے واسطے اکیلےنکلنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور کیا قصور تھا اس نوجوان راہگیر کا جو ڈکیتوں کے خوف کی نظر ہو گیا۔ کہانی افسانہ یا بلاگ لکھنا کبھی اتنا مشکل نہیں لگا جتنا آج اس ظلم کی دہائی دیتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔
اسامہ میرے بیٹے کا بھی دوست تھا میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہی اسامہ سے اپنے موبائل کی بیٹری اور چارجر لینے گئی تھی میری نظروں میں اس کا چہرہ گھوم رہا ہے جب اپنے بیٹے پر نظر پڑتی ہے وہ بچہ یاد أنے لگتا ہے اور صرف اسی وجہ سے آج قلم اٹھانے پر مجبور ہوئی ہوں بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں نا۔
جناب بلاول زرداری فرماتے ہیں کہ میں پورے شہر کی پولیس ناظم آباد میں تو تعینات نہیں کر سکتا ارے بے حسوں تمہارے جلسوں پر پورے شہر کی پولیس الرٹ ہو سکتی ہے مگر کسی کی جان مال عزت کی تمہاری نظر میں کوئی وقعت نہیں؟ تمہاری گندی سیاست کی نظر تو میرا کراچی کئی برسوں سے ہے اب حالات اور بد سے بدتر ہوتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بے حس حکمرانوں ڈرو اس وقت سے کہ روز قیامت ان مظلوم نوجوانوں کے ہاتھ ہوں گے اور تمہارا گریبان ہوگا۔